انسان کے پاس سب سے بیش قیمت چیز “خیال” ہے۔ یہ خیال ہی ہے جو انسان کو سماجی زندگی گزارنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ خیال ہی ہے جو کسی نثر کو شہ پارے کی حیثیت دلوا دیتا ہے۔
یہ خیال ہی ہے جو کسی شعر کے لئے مکرر ارشاد کے مطالبات بلند کروا دیتا ہے۔ یہ خیال ہی ہے جو سیاسی کوچوں میں ہنگاموں کا طوفان برپا کر دیتا ہے اور وہ بھی خیال ہی ہے جو لشکری طوفانوں کا رخ موڑ دیتا ہے۔ خیال کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے اجتماعی مفاد کی نشاندہی کرکے اس کی اجتماعی زندگی کے امکانات پہلے پیدا اور پھر مستحکم کر تا ہے۔
اس مقصد کے لئے خیال کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے جس سے اس میں مزید بہتری آتی جاتی ہے۔ خیال کیلئے سب سے بنیادی چیلنج یہ ہے کہ چونکہ یہ اپنی بیشتر حالتوں میں ایک سے زائد انسانوں کو مثبت یا منفی کسی بھی صورت میں متاثر کرتا ہے لھٰذا اسے ”اختلافی خیال“ سے لے کر دشمنی تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کہنے کو آج کا ترقی یافتہ انسان بھی سب سے زیادہ علمبردار ”دلیل“ کا ہی ہے لیکن گزرے ہوئے زمانوں کے انسان کی طرح دلیل کا یہ بھی تب تک ہی قائل رہتا ہے جب تک اس کی اپنی دلیل مضبوط ہو۔
جس لمحے تبادلۂ خیال میں دلیل کمزور پڑ جائے، خیال پر پہلے گالی پھر گولی فوقیت حاصل کرجاتی ہے۔ یہ تماشے آپ کو خالص دینی مباحث سے لے کر خالص ادبی سے ہوتے ہوئے خالص سائنسی میدانوں تک میں نظر آسکتے ہیں۔ خیالات سے اختلاف اور دشمنی اگر گروہی سطح پر ہوجائے تو موضوع کی مناسبت سے یہ بدترین لسانی و فرقہ وارانہ فسادات تک کا سبب بن سکتے ہیں۔ سماجی سطح پر معروف کسی بھی شخصیت کا اظہارِ خیال کسی بھی لمحے آگ اور خون کا میدان گرما سکتا ہے۔ مگر اس صورت میں عام طور پر صاحبِ خیال خود سکیورٹی حصار کے پیچھے محفوظ رہتا ہے۔
مرنا اور کھپنا عام آدمی کو ہی پڑتا ہے۔ کسی بڑے آدمی کیلئے اس کا خیال تب ابتلا کا باعث بنتا ہے جب وہ کوئی مفکر، دانشور یا عالم ہو۔یہ جو ہم عمرانی معاہدوں کا گرم جوش ذکر سنتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں اور جن کے دم سے دنیا بھر کی حکومتیں قائم ہیں، یہ بنیادی طور پر مفکرین کے خیالات کا ہی حاصل ہیں۔ اب یہ سنتے ہی پہلا خیال ذہن میں یہی آتا ہے کہ مفکرین کے خیالات کتنی رفعت رکھتے ہیں کہ ان کے اثرات عالمگیر ہیں۔ ابھی دل و دماغ اس عظمت کے آگے سجدہ ریز ہونے ہی لگتے ہیں کہ پتہ چلتا ہے کہ مفکرین کے یہ خیالات اپنی عملی شکل میں جن کے ہاتھ میں ہیں ان کا سب سے بڑا خوف ہی کچھ دیگر مفکرین کے خیالات سے وابستہ ہے۔
اور یہیں سے ریاستی ابتلا کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں عظمت انہی انسانوں کو میسر آئی ہے جنہوں نے خیال پیش ہی نہیں کیا بلکہ جب مخالفت کی ہوا ئیں یا طوفان اٹھے تو استقامت بھی اختیار کرلی۔ سقراط کے پیالے سے لے کر ہمارے عہد کے کسی بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے سیاسی ورکر تک ابتلا کا سامنا کرنے والے لوگ بنیادی طور پر کسی خیال کی خاطر ہی استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ خیال جس شدت سے خوف زدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسی شدت سے خود بھی خوفزدہ رہتا ہے۔
شجاعت اور دلیری کسی قوم یا مذہب کی تنہا میراث تو ہے نہیں کہ خیالاتِ حق کی خاطر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بس ایک خاص قوم یا خاص مذہب کے ماننے والے ملتے ہوں۔ بلکہ معاملہ یہ ہے کہ لگ بھر ہر ملک و معاشرت میں ایسے دلیر افراد امتیازی حیثیت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اور یہ ان کے جذبۂ قربانی کا ہی اثر ہے کہ مختلف مذاہب و معاشروں کے ایسے انسانوں کا احترام عالمگیر سطح پر ہوتا ہے۔
مثلاً ماضی قریب کے مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا کا عالمگیر سطح کا احترام ہی دیکھ لیجئے۔ یہ احترام محض خیال پیش کرنے کے سبب نہیں بلکہ اپنے خیالات کے لئے دی گئی قربانی کے سبب ہے۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ چپ کا روزہ رکھ کر ”عافیت“ پائی جاسکتی ہے؟ ایسے بے چلن ہمارے ہی عہد میں نظر آرہے ہیں جو پاکستان میں تو منہ پر ڈھکن رکھ کر بیٹھے ہوتے ہیں لیکن جوں ہی کسی امریکی یا برطانوی ادارے کی نوکری مل جائے تو وطن سے ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھ کر راتوں رات بہادر بن جاتے ہیں۔
ان مسخروں سے پوچھئے کہ صاحب! کیا وجہ ہے کہ یہاں تو کبھی آپ سے اس طرح کا خیال سننے کو نہیں ملا؟ تو پوری بے شرمی کے ساتھ جواب دیتے ہیں:
”پاکستان میں سچ کہنا کہاں ممکن ہے؟“
یہ وہی مؤقف ہوا جودس سال قبل ایک معصوم یوتھیے نے کچھ یوں پیش کیا تھا:
”اگر پولیس تشدد کرے گی تو انقلاب کیسے آئے گا؟“
میزان پر پورا تول رکھنے والا حق وہی ہے جو نامساعد حالات میں بول کر اس کے نتائج بھی بھگت لئے جائیں۔ انقلاب وہی ہے جو رکاوٹوں کو کچلتا ہوا اپنی راہ بنانے میں کامیاب ہوجائے۔ حق گو کیلئے پھول اور انقلاب کیلئے ریڈ کارپٹ نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ سچ پر قدغن ہر معاشرے میں ہوتی ہے۔ وہ بھی ایک سچ ہی تھا جس کے لئے مالکم ایکس کو قتل ہونا پڑا تھا ۔ مالکم ایکس رنچھوڑ لائن کراچی میں نہیں بلکہ امریکہ کے شہر نیویارک میں قتل کیا گیا تھا۔ محمد علی جیسے عظیم باکسر نے اپنا اولمپک گولڈ میڈل لیاری ندی میں نہیں بلکہ اوہائیو ریور میں پھینکا تھا کیونکہ گوری چمڑی کی طرح سیاہ چمڑی بھی ایک سچائی تھی مگر اس سچائی کیلئے امریکہ کے ریستورانوں اور بسوں میں جگہ نہ تھی۔
حضور! بات صرف اتنی سی ہے کہ آپ میں اپنے حصے کے سچ کیلئے قربانی دینے کا حوصلہ نہیں۔ اور جس سچ کیلئے قربانی دینے کا حوصلہ نہ ہو وہ نہ اظہار پاسکتا ہے اور نہ ہی وزن۔ پھر ایک حقیقت یہ بھی تو ہے کہ بھاڑے کے بیانیے حق نہیں محض پروپیگنڈہ ہوتے ہیں۔ حق علم کی کوکھ سے جنم لیتا ہے اور بیانیے انٹیلی جنس اداروں کے دفاتر سے۔