16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا ایک افسوسناک دن ہے، جب بھارت کی سازشوں کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔
بھارت نے پاکستان مخالف عناصر کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کی، جس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی، جو بالآخر پاکستان کے قیام کے صرف 24 برس بعد ہی اس کی تقسیم پر منتج ہوئی۔
مشرقی پاکستان
بنگال کا مشرقی حصہ 1947 میں تقسیمِ ہند کے وقت پاکستان کا حصہ بنا اور مشرقی پاکستان کہلایا۔ پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان تقریباً 1600 کلومیٹر کا فاصلہ تھا، اور ان کا واحد مضبوط تعلق اسلام تھا تاہم نسلی اور لسانی اختلافات کی وجہ سے یہ علاقے ایک دوسرے سے مختلف تھے، اور مغربی پاکستان کی ناقص حکمرانی نے ان اختلافات کو مزید بڑھاوا دیا۔
بالآخر شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں مشرقی پاکستان نے 16 دسمبر 1971 کو پاکستان سے علیحدگی اختیار کر کے بنگلہ دیش بنالیا۔ اس عمل میں بھارت نے بھرپور مدد کی، اور اس طرح امت مسلمہ کی سب سے بڑی ریاست دو لخت ہو گئی۔
بھارتی پروپیگنڈہ
پاکستان کے دونوں حصے جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے دور تھے اور بھارت نے اس فاصلے اور بداعتمادی کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کی عوام میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے کا سہارا لیا، جس سے دونوں حصوں کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو گئے۔
تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کا کردار
مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کی بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے ایسا مواد تیار کیا جو بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے لیے نفرت پیدا کرے۔ اس نفرت نے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کو اپنے ہی بھائیوں کے خلاف کر دیا۔
فوجی کارروائی
1970 کے عام انتخابات کے بعد ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب ہو گئی۔ حکومت نے عوامی لیگ کو غیر قانونی قرار دے کر مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کی۔ اس کے نتیجے میں عوامی لیگ کے رہنما اور کئی بنگالی بھارت فرار ہو گئے، جس سے بھارت کو پاکستان کے معاملات میں مداخلت کا موقع ملا۔
مکتی باہنی
شیخ مجیب الرحمان نے مکتی باہنی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، جسے بھارت کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس تنظیم نے گوریلا جنگ کے ذریعے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مکتی باہنی نے نہ صرف بہاریوں بلکہ اپنے ہم وطنوں کے قتلِ عام میں بھی حصہ لیا۔
البدر اور الشمس
پاک فوج کے لیے مشرقی پاکستان میں کارروائیاں مشکل تھیں کیونکہ مقامی راستوں سے لاعلمی اور افرادی قوت کی کمی درپیش تھی۔ ایسے میں مقامی اسکولوں اور کالجوں کے نوجوانوں نے پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کی پیشکش کی۔ ان رضاکاروں نے اپنی جانیں قربان کر کے پاکستان کے لیے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
پاکستان کا ساتھ دینے والوں کو سزائیں
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمان نے ان افراد کو سزائیں دینے کے لیے ایک قانون نافذ کیا جو عوامی لیگ کے خلاف تھے۔ آج بھی بنگلہ دیش میں البدر اور دیگر رضاکاروں کو پرانے مقدمات کے تحت پھانسیاں دی جا رہی ہیں، جنہیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔
پاکستان میں بنگالیوں کے مسائل
سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے دوران پاکستان سے محبت کرنے والے کئی بنگالی بنگلہ دیش میں محصور ہو گئے جبکہ پاکستان میں مقیم بنگالی آج بھی شناختی مسائل سے دوچار ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے وہ تعلیم، روزگار اور دیگر شعبوں میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت کو ان مسائل کا حل نکالنا چاہیے تاکہ یہ محب وطن افراد پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔