ایرانی ایٹمی تنصیبات پر 13 ٹن وزنی دنیا کا مہلک ترین امریکی بم “جی بی یو-57” گرانے کا خطرہ

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو عالمی میڈیا

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران امریکی مداخلت کے امکانات پر دنیا بھر میں نظر جمی ہوئی ہے۔

اگرچہ اسرائیل نے گزشتہ چند دنوں میں ایران کی کئی زمینی تنصیبات پر مہلک حملے کیے ہیں اور متعدد ایرانی عسکری کمانڈروں کو نشانہ بنایا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل تنہا ایران کے گہرائی میں واقع حساس جوہری پروگرام کو مکمل طور پر مفلوج کر سکتا ہے؟ ماہرین کا جواب واضح ہے: “نہیں، جب تک امریکہ کی مداخلت نہ ہو۔”
امریکی فضائیہ کے تیار کردہ بم “جی بی یو-57” جسے Massive Ordnance Penetrator بھی کہا جاتا ہے، کو دنیا کے سب سے طاقتور غیر جوہری بموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بم 13 ٹن وزنی اور 6.6 میٹر طویل ہے، جسے زیرِ زمین محفوظ پناہ گاہوں اور جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔

الجزیرہ نے امریکی عسکری ماہرین کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ یہ بم 61 میٹر (200 فٹ) کی گہرائی تک چٹانوں، اسٹیل اور کنکریٹ کو چیرتا ہوا اندر گھس سکتا ہے اور پھر اسمارٹ فیوز (Smart Fuse) کے ذریعے اُس وقت پھٹتا ہے جب وہ ہدف کے بالکل اندر پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اس میں نصب جدید ترین “کویٹی ڈیٹیکشن” سسٹم زمین کے اندر بنے خفیہ کمروں اور سرنگوں کو پہچانتا ہے اور اندر داخل ہوتے ہی دھماکہ کرتا ہے، تاکہ حتمی تباہی یقینی بنائی جا سکے۔
صرف امریکہ کے پاس:
یہ مہلک ہتھیار صرف امریکہ کے پاس موجود ہے اور اسے صرف B-2 “اسپرٹ” اسٹیلتھ بمبار طیارے کے ذریعے ہی فضا سے گرایا جا سکتا ہے۔ یہ بمبار طیارہ اپنی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی اور طویل فاصلے تک پرواز کی صلاحیت کی وجہ سے امریکا سے مشرقِ  وسطیٰ تک کسی بھی مقام پر بغیر رُکے کارروائی کر سکتا ہے۔ ماضی میں یہ امریکا سے اڑان بھر کر افغانستان پر حملے کر کے واپس امریکا لوٹتا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق امریکہ نے 2009 میں اس بم کی تیاری کا آرڈر دیا تھا، جس کے بعد بوئنگ کمپنی نے کم از کم 20 یونٹس تیار کیے۔ مئی 2023 میں جاری کردہ تصاویر میں یہ بم وہائٹمین ایئر بیس (Missouri) میں امریکی فضائیہ کے ذخیرے میں دیکھا گیا تھا اور حالیہ رپورٹس کے مطابق مئی 2025 میں یہ ڈیگو گارشیا کے امریکی اڈے پر بھی موجود تھے، حالانکہ جون کے وسط میں وہ وہاں سے غائب ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی حملوں کی حدود:
اب تک اسرائیل نے ایران کے بعض جوہری مراکز، جیسے نطنز اور اصفہان پر حملے کیے ہیں، مگر یہ تنصیبات زمین کی سطح سے قریب ہیں۔ ان کے مقابلے میں فوردو جیسی تنصیبات، جو تہران کے جنوب میں واقع ہے، تقریباً 100 میٹر گہرائی میں قائم ہے اور پہاڑوں کے نیچے چھپی ہوئی ہے۔ امریکی جنرل مارک شوارتز کا کہنا ہے کہ ایسی گہری اور مضبوط جگہ کو صرف جی بی یو-57 بم سے ہی تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کے پاس ایسا کوئی بم یا بمبار طیارہ نہیں۔”
اسرائیل کی متبادل حکمت عملی:
اگر امریکہ براہِ راست مداخلت نہ کرے، تو اسرائیل کے پاس فوردو جیسے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے متبادل حکمت عملی ہو سکتی ہے، مثلاً داخلی دروازوں اور ایگزٹ پوائنٹس کو تباہ کرنا، تنصیبات کی بجلی منقطع کرنا، زیر زمین سرنگوں کے دہانے ملبے سے بند کرنا۔ یہی حکمت عملی نطنز پر حملے کے دوران استعمال کی گئی تھی، جس میں اگرچہ مکمل تباہی نہیں ہوئی، مگر جوہری سرگرمیاں محدود ہو گئیں۔
سفارتی اور سیاسی نتائج:
ایران پر امریکی بم “جی بی یو-57” کے استعمال کا فوجی فائدہ تو واضح ہوگا، مگر اس کے سفارتی اور سیاسی نتائج نہایت سنگین ہو سکتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہر بہنام بن طالبلو کے مطابق ایسا حملہ امریکہ کو نہ صرف مشرق وسطیٰ میں تنہا کر سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر اسے ایک جارح قوت کے طور پر بھی پیش کرے گا۔ جب تک کوئی دیرپا سفارتی حل نہ ہو، صرف عسکری کارروائی مسئلے کا حل نہیں۔
اسرائیل کا حوصلہ، ایران کی تیاری:
اسرائیل کے حالیہ حملے ایران کے کئی اہم فوجی عہدیداروں کو نشانہ بنا چکے ہیں، جس سے تہران میں بے چینی اور بدلہ لینے کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ ادھر امریکہ کے ممکنہ کردار پر عالمی میڈیا میں بحث تیز ہو چکی ہے، کیا واشنگٹن صرف فوجی مشاورت تک محدود رہے گا یا خود میدان میں کود پڑے گا؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کا “جی بی یو-57” بم اب صرف ایک ہتھیار نہیں رہا، بلکہ خطے میں ممکنہ بڑی جنگ کا استعارہ بن چکا ہے۔

ایران اسرائیل اور امریکہ کی پالیسیوں کے درمیان ایک نکتہ اشتعال کی صورت میں، یہی بم اگلی جنگ کا آغاز بھی کر سکتا ہے اور دنیا ایک اور خلیجی بحران کی دہلیز پر جا کھڑی ہو گی۔

Related Posts