پچاس سالہ اقتدار کا سورج غروب، اسد خاندان کے طویل دور کی جھلکیاں

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فوٹو بی بی سی

بالآخر شام میں مسلح انقلاب کے نتیجے میں پانچ دہائیوں سے زائد عرصے تک حکومت کرنے والے الاسد خاندان کے اقتدار کا سورج غروب ہوگیا ہے۔

انقلابیوں نے نومبر کے آخر میں شام کے مختلف شہروں کے بعد 8 دسمبر کی صبح دارالحکومت دمشق پر بھی قبضہ کرلیا جس سے کچھ ہی دیر پہلے 24 سال سے بر سر اقتدار آمر بشار الاسد ملک سے فرار ہوگئے۔

آئیے جانتے ہیں کہ اسد خاندان کس طرح خاندان نے شام میں اقتدار کا آغاز کیا اور کس طرح وہ زوال کا شکار ہوا۔

حافظ الاسد اس وقت شامی حکومت میں وزیر دفاع تھے اور انہوں نے ایک تحریک کی قیادت کرتے ہوئے 16 نومبر 1970 کو فوجی بغاوت کی۔

وہ 1971 میں بعث پارٹی کے امیدوار کے طور پر شام کے صدر منتخب ہوئے کیونکہ ان کے مقابلے پر کوئی امیدوار ہی کھڑا نہیں ہوا۔

1973 : اسرائیل سے جنگ

شام اور مصر نے اسرائیل پر اچانک حملہ کیا تھا تاکہ 1967 کی 6 روزہ جنگ میں اسرائیلی قبضے میں جانے والی زمین کو دوبارہ حاصل کیا جاسکے۔

تاہم اس جنگ میں دونوں ممالک کو شکست ہوئی اور شام گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کو دینے پر مجبور ہوگیا۔

1982 : حماہ میں قتل عام

حافظ الاسد کی حکومت نے حماہ شہر میں اخوان المسلمین کی تحریک کے خلاف خونی آپریشن کیا۔

مختلف تخمینوں کے مطابق حکومتی کریک ڈاؤن میں 10 سے 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

1994 : باسل الاسد کا انتقال

باسل حافظ الاسد کے بڑے بیٹے اور ممکنہ جانشین تھے جو 1994 میں گاڑی کے ایک حادثے میں ہلاک ہوئے۔

اس واقعے کے بعد حافظ الاسد نے اپنے چھوٹے بیٹے بشار الاسد کو قیادت کے لیے تیار کرنا شروع کیا، حالانکہ اس وقت بشار الاسد ماہر امراض چشم کے طور پر تربیت حاصل کر رہے تھے۔

2000 : حافظ الاسد کا انتقال اور بشار الاسد کے اقتدار کا آغاز

لگ بھگ 30 سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد حافٖظ الاسد کا انتقال 10 جون 2000 کو ہوا۔

بشار الاسد کی عمر اس وقت 34 سال تھی اور انہیں صدر بنانے کے لیے آئین میں تبدیلیاں کرکے صدر کے لیے کم از کم عمر کی حد کو کم کیا گیا، جس کے بعد وہ صدر منتخب ہوئے۔

2000-2011 : بشار الاسد کے اقتدار کا ابتدائی عرصہ

بشار الاسد نے ابتدا میں محدود اصلاحات متعارف کرائیں جیسے معیشت پر حکومتی کنٹرول کو کم کیا جبکہ کچھ سیاسی پابندیوں کو نرم کردیا، مگر ان اصلاحات کی زندگی مختصر رہی اور حکومت نے ایک بار پھر آمرانہ روش اپناتے ہوئے مخالفین کے ٓخلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔

کرپشن، معاشی عدم مساوات اور سیاسی مخالفین کو دبانے کا سلسلہ برقرار رہا جس سے حالات بتدریج خراب ہونے لگے۔

2011 : خانہ جنگی کا آغاز

عرب بہار سے متاثر ہوکر شام بھر میں مظاہرین نے سیاسی آزادی اور کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جس کے جواب میں بشار الاسد کی حکومت نے پرتشدد کریک ڈاؤن کیا جس پر خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔

یہ تنازع شدت پکڑتا گیا کیونکہ متعدد مخالف گروپس ابھرے جبکہ غیر ملکی طاقتیں جیسے امریکا، روس اور دیگر اس میں ملوث ہوگئیں۔

اس خانہ جنگی کے نتیجے میں 3 لاکھ 88 ہزار سے زائد اموات ہوئیں جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوگئے۔

2013 : کیمیائی ہتھیاروں کے الزامات

بشار الاسد حکومت پر غوتہ کے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا اور بین الاقوامی سطح پر اس کی مدمت کی گئی۔

امریکا اور روس کے دباؤ پر شامی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے تیار ہوگئی، مگر کیمیائی حملوں کی رپورٹس اس کے بعد بھی سامنے آتی رہیں۔

2022-2023 : حالات معمول پر لانے کی کوششیں

عرب ریاستوں نے برسوں بعد بشار الاسد کی حکومت سے تعلقات بحال کرنا شروع کیے۔

2023 میں شام کو ایک بار پھر عرب لیگ میں شامل کرلیا گیا۔

2024 : الاسد خاندان کے اقتدار کا سورج ڈوب گیا

نومبر 2024 کے اواخر میں شامی باغیوں نے اچانک برق رفتاری سے شام میں پیشقدمی شروع کی۔

انہوں نے چند دنوں میں ادلب، حلب ،حماہ اور حمص جیسے اہم شہروں پر قبضہ کیا اور پھر دمشق کو منزل بنالیا۔

8 دسمبر کو باغیوں نے جو اب انقلابیوں میں تبدیل ہوچکے تھے، بشار الاسد حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا جبکہ رپورٹس کے مطابق بشار الاسد اپنے خاندان کے ساتھ کسی نامعلوم مقام کی جانب فرار ہوگئے۔

Related Posts