چین اور اس کے مسلمانوں کی کہانی (تیسری قسط)

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پروپیگنڈہ دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ آج کے مغرب سے بڑا انسانی مساوات و تعمیری مسابقت کا اس دنیا میں کوئی چیمپئن ہی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت دیکھیں تو صنعت و تجارت کے میدان میں چائنا کی پر امن مسابقت نے مغرب کے ہوش پراں کر دئے ہیں۔ اور وہ اب ترقی کے میچ میں اپنی شکست روکنے کے لئے “بال ٹیمپرنگ” سے ملتی جلتی حرکتوں پر اتر آیا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کو صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا کی قیادت مغرب سے مشرق کی طرف منتقلی کا وقت سر پر آپہنچا ہے۔

چین ہمارے ہی مسلط کردہ صنعت، تجارت اور سیاست کے عالمی قوانین کی مکمل پاسداری کرکے بھی ہم سے آگے نکل رہا ہے۔ حالانکہ وہ قوانین تو ہم نے تشکیل ہی اس بند وبست کے ساتھ دئے تھے کہ ترقی ہمیشہ ہماری ہی یقینی رہے۔ مثلا زیادہ عرصہ نہیں ہوا بل کلنٹن کے دور کی بات ہے جب مغرب نے مل کر اس بات پر زور لگانا شروع کیا کہ چین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا حصہ بنے اور اپنی مارکیٹ سب کے لئے کھولے۔

اس زمانے کے عالمی تجزئے نکال کر پڑھئے تو نظر آئے گا کہ سب کو یقین تھا کہ اگر چین نے امریکہ اور اس کے حواریوں کا یہ مطالبہ مانا تو نتیجتا چین ختم ہوجائے گا۔ اور اگر نہ مانا تو تب بھی تنہائی کا شکار ہوکر ختم ہوجائے گا۔ لیکن ہوا کیا ؟ 2001ء میں چین ڈبلیو ٹی او کا حصہ بھی بنا اور اوپن مارکیٹ اکانومی کی مدد سے سب کو پیچھے بھی چھوڑ گیا۔ آج امریکہ کا بس نہیں چلتا کہ کسی طرح اسے ڈبلیو ٹی او سے واپس نکال باہر کردے۔

بال ٹیمپرنگ کے لئے امریکہ اور اس کے حواریوں نے اپنی جیبوں میں بوتلوں کے جو ڈھکن سنبھال رکھے ہیں وہ تین ہیں۔ پہلے ڈھکن کا نام ہے آزادی،، دوسرا ڈھکن ڈیموکریسی، اور تیسرا ڈھکن انسانی حقوق کہلاتا ہے۔ امریکہ اور س کے حواری جب کسی ملک کا تیا پانچہ کرنے کا فیصلہ کرلیں تو وہ ان تین ڈھکنوں کی مدد سے ہی بال ٹیمپرنگ کرتے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ چین کے خلاف حالیہ بال ٹیمپرنگ کا آغاز کیسے ہوا۔ 2018ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اچانک خواب آیا کہ امریکہ اور چین کے مابین تجارتی معاہدے تو بہت ہی غیر منصفانہ ہیں۔

ان معاہدوں کے نتیجے میں چین مزے کر رہا ہے جبکہ امریکہ سخت نقصان اٹھا رہا ہے۔ مگر ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا کہ ان معاہدوں کے لئے معصوم سے امریکہ کا بازو مروڑا کس نے تھا ؟ چینی ترقی کی رفتار اور امریکہ کی عالمی اجارہ داری کو لاحق خطرے کا الزام کسی پر تو رکھنا تھا۔ چنانچہ تجارتی معاہدوں پر رکھدیا گیا۔ اور یکطرفہ طور پر چین کے سٹیل اور دیگر مصنوعات پر ڈیوٹی اتنی بڑھا دی گئی کہ کوئی امپورٹ ہی نہ کرسکے۔ ٹرمپ نے سوچا تھا کہ دھیمی سروں والا چین اس اقدام پر “مذاکرات” کی پیشکش کرے گا لیکن چین کا جواب ترکی بہ ترکی آیا۔ اس نےڈیوٹی کا جواب ڈیوٹی سے دیا۔

دال گلی نہیں تو امریکہ کی جانب سے چینی ٹیلی کام جائنٹ ہواوے کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ ہواوے کی چیف فائنانشل آفیسر مینگ وان زھو کو کینیڈا میں گرفتار کروا کر ان کی امریکہ حوالگی کا مطالبہ کردیا گیا۔ الزام ان پر یہ دھرا گیا کہ ہواوے کی ہانگ کانگ میں پارٹنر کمپنی نے ایران کو امریکی مشینری فروخت کی ہے جو امریکہ کی ایران پر پابندیوں کی خلاف ورزی ہے۔ چین کا موقف ہے کہ یہ اقدام اس کے ساتھ نئے تجارتی معاہدوں کے لئے دباؤ کی غرض سے اٹھایا گیا ہے جو ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ اور جوابا چین نے کینیڈا کے دو شہریوں کو جاسوسی کے الزام میں بھی دھر لیا، اور ان پر مقدمہ بھی شروع کردیا۔

کھیل ہاتھ سے نکلتا نظر آیا تو چین کے خلاف پہلے سوشل میڈیا پر ہانگ کانگ اور سنکیانک کے حوالے افواہیں پھیلانی شروع کی گئیں اور جب ان افواہوں کے نتیجے میں ہر طرف تجسس کی کیفیت پیدا ہوگئی تو پھر بی بی سی کے ذریعے رپورٹ نشر کروائی گئی کہ سنکیانک میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے اور یہ کہ وہاں دس لاکھ مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے جن سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ کینیڈا نے آگے بڑھ کر اس فرضی اور من گھڑت “قتل عام” کے خلاف اپنی پارلیمنٹ سے قرارداد مذمت بھی منظور کروا لی۔

اب اگر آپ غور کریں تو اس پورے معاملے میں امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا مذکورہ تینوں ڈھکن ہی استعمال کر رہے ہیں۔ اور استعمال کی وجہ کیا؟ فقط یہ کہ امریکہ چین کے ساتھ تجارت کے طے شدہ معاہدوں میں تبدیلی چاہتا ہے۔ لیکن ان ممالک سے اس پورے معاملے میں اوور ایکٹنگ سرزد ہوگئی ہے۔ اتنی اوور ایکٹنگ کہ ان تینوں ممالک کے کچھ نامی گرامی بلاگرز اور یوٹیوبرز بھی اپنے ہی ممالک کے خلاف اور چین کے حق میں سامنے آگئے ہیں۔ اور وہ چینی موقف کی برملا حمایت کر رہے ہیں۔ چینی موقف کے چیدہ پوانٹس یہ ہیں

٭ دس لاکھ انسانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھنے کے لئے کم از کم بھی ایک ہزار کیمپ درکار ہوں گے۔ یہ کیمپ اور ان کی سیٹلائٹس پکچرز کہاں ہیں ؟ کیا گوگل ارتھ کے دور میں ایک ہزار حراستی کیمپ اور دس لاکھ انسان چھپائے جا سکتے ہیں؟

٭ پچھلے چالیس سال کے دوران سنکیانک کےا یغور مسلمانوں کی آبادی دگنی ہوئی ہے اور یہ رفتار چین کی دیگر نسلوں سے زیادہ ہے

٭ اگر وہاں قتل عام ہو رہا ہے اور دس لاکھ لوگ لاپتہ کردئے گئے ہیں تو 2010ء سے 2018ء کے مابین ایغور مسلمانوں کی آبادی میں 25 فیصد اضافہ کیسے ہوگیا ؟ سنکیانک کی جو آبادی 2010ء میں 21 ملین تھی وہ اب 25 ملین کیسے ہوگئی ؟ اور اس میں بھی بالخصوص ایغور مسلمانوں کی آبادی میں 2 اعشاریہ 55 ملین کا اضافہ کیسے ہوگیا ؟

٭ اگر چین کا سنکیانک اور اس کے مسلمانوں کے ساتھ رویہ متعصبانہ ہے تو پچھلے ساٹھ سال میں سنکیانک کی جی ڈی پی میں 200 گنا اضافہ کیسے ہوگیا ؟ اور اس کے پر کیپٹا جی ڈی پی میں 40 گنا اضافہ کیونکر ہوا ؟

٭ 1978ء میں سنکیانک کے لوگوں کی اوسط عمر 30 برس ہوا کرتی تھی۔ روزگار، خوراک، صحت اور ماحولیات کا معیار بہتر کرنے کے نتیجے میں آج اسی سنکیانک میں لوگوں کی اوسط عمر 72 سال ہے۔ کیا یہ کارنامہ کوئی متعصب حکومت انجام دے سکتی ہے ؟

٭ اگر اس علاقے میں قتل عام چل رہا تھا اور دس لاکھ افراد کو حراستی کیمپوں میں رکھا گیا ہے تو اسے تو سیل ہونا چاہئے تھا۔ اس کے برخلاف صرف 2019ء میں ملکی و غیرملکی 21 کروڑ 30 لاکھ سیاح اس علاقے میں سیر و سیاحت و تجارت کے لئے کیسے چلے گئے ؟

٭ جب حکومت خود قتل عام کر رہی تھی تو پھر یہ کیسے ممکن ہوگیا کہ کرونا جیسی مہلک وبا سے سنکیانک کے صرف تین شہری ہی جان بحق ہوئے ؟ متعصب حکومت کو تو ارادی غفلت کا مظاہرہ کرکے اس وبا کے وہاں پھیلنے کی تدبیر کرنی چاہئے تھی

حیران کن بات یہ ہے کہ چین کے اس موقف کا صرف مغربی میڈیا میں ہی مکمل بلیک آؤٹ نہیں کیا گیا بلکہ مغرب کے زیر اثر مسلم ممالک کے میڈیا میں بھی یہ چیزیں نہیں آنے دی گئیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایشیائی ملکوں کی صحافت کو خریدنے کے لئے قائم امریکہ کے “پرسیپشن منیجمنٹ فنڈ” کی برکات پاکستانی میڈیا تک بھی پہنچتی ہیں۔

اس فنڈ کی تقسیم سے نہ صرف مغرب اور اس کے نظام کے حق میں پروپیگنڈہ کروایا جاتا ہے بلکہ ساتھ ہی اس بات کا بھی بند و بست کیا جاتا ہے کہ چین اور روس کے حوالے سے صرف بری خبریں ہی نشر ہوں۔ مثلا یہ کہ چین میں سیلاب یا برفباری سے نظام زندگی درہم برہم وغیرہ وغیرہ۔ قابل غور بات ہے کہ ہالیووڈ یا بالیووڈ کی کسی اداکارہ کو کھانسی بھی ہوجائے تو ہمارا میڈیا اس کے خبر دیتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی پاکستانی میڈیا پر چائنیز شوبز کی بھی کوئی خبر دیکھی ؟

اربوں ڈالر کی یہ انڈسٹری وہاں بھی موجود ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارا میڈیا صرف ہالیووڈ اور بالیووڈ تک ہی محدود رہتا ہے ؟ یہ سب پرسیپشن منیجمنٹ فنڈ کا کمال ہے۔ وہ فنڈ جس کی مدد سے امریکہ “اظہار کی آزادی” کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور ہم اس خوش فہمی میں مبتلا کہ امریکہ آزادی اظہار کا بہت بڑا چیمپئن ہے۔ کیوں نہ ہوں ہم اس خوش فہمی میں مبتلا کہ یہ بھی تو ہمیں اس فنڈ کی مدد سے ہی بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور مغرب آزادی اظہار کے بہت بڑےچیمپئن ہیں۔(جاری ہے)

Related Posts