پاکستان کا سیاسی منظر نامہ 1947 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی ہنگامہ آرائی اور اتھل پتھل کا شکار رہا ہے۔ ملک کی سیاسی تاریخ کو کئی مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ہر مرحلہ مختلف تنازعات سے بھرپور رہا۔
ہر مرحلے پر مختلف سیاسی تحریکوں، رہنماؤں اور اداروں کی طرف سے مختلف بیانات سامنے آئے۔ فوجی حکمرانی کے ابتدائی سالوں سے لے کر جمہوری طرز حکمرانی کے موجودہ دور تک، پاکستان کی سیاست میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔
ابتدائی مرحلے کی بات کی جائے تو پاکستان 1947 میں دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک بن کر دنیا کے نقشے پر طلوع ہوا۔ 1948 میں ہی پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلۂ کشمیر پر پہلا عسکری تنازعہ ہوا جس نے دونوں ملکوں کے درمیان کئی دہائیوں کی کشیدگی اور تنازعات کیلئے بہت سے فیصلوں کی بنیاد رکھ دی۔
ابتدا سے ہی پاکستان پر مسلم لیگ کا غلبہ تھا، جس نے ملک کی تخلیق میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ تاہم پارٹی اندرونی تقسیم اور آپس کی لڑائیوں میں گھری ہوئی تھی۔ 1951 میں مسلم لیگ کو ملک کے پہلے عام انتخابات میں مرکزی بائیں بازو کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے تاریخ میں پہلی بار شکست دے دی۔
پہلی فوجی بغاوت کے نتیجے میں جنرل ایوب خان کو اقتدار ملا۔ ایوب خان کی حکومت نے تیز رفتار اقتصادی ترقی اور جدیدیت کو فروغ دیا، لیکن سیاسی جبر اور شہری آزادیوں کو دبانے کی قیمت پر پر یہ ترقیاں ملک کو راس نہ آسکیں۔ حکومت کی آمریت اور امریکہ سے قریبی تعلقات نے بائیں بازو اور قوم پرست تحریکوں کی بڑھتی ہوئی ناراضگی اور مخالفت کو ہوا دی۔
اسی دور میں 1969 میں بڑے پیمانے پر احتجاج اور ہڑتالوں کے بعد ایوب خان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے بعد آنے والی فوجی حکومت نے جس کی قیادت جنرل یحییٰ خان کر رہے تھے، 1970 میں ملک کے پہلے جمہوری انتخابات کی نگرانی کی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے۔ بھٹو کی حکومت کی توجہ عوامی پالیسیوں اور کلیدی صنعتوں کو قومیانے پر مرکوز تھی۔ بھٹو نے ملک کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی بھی نگرانی کی، اور اس دور میں پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہوئے۔
تاہم بھٹو کی حکومت سیاسی جبر اور اپوزیشن کو دبانے کی وجہ سے بھی تنقید کا شکار رہی۔ 1977 میں جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں ایک فوجی بغاوت میں ذوالفقار بھٹو کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور بعد ازاں ملک کے وزیر اعظم کو پھانسی بھی دے دی گئی۔
ضیاء الحق کی حکومت میں سخت اسلامی قوانین کا نفاذ اور سیاسی اختلاف رائے کو دبانے کے حربے آزمائے گئے۔ ضیاء الحق کے دور حکومت میں بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور سوویت افغان جنگ میں ملک کی شمولیت بھی نمایاں تھی۔
پھر 1988 میں ضیاء الحق طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوئے اور اس کے بعد آنے والی فوجی حکومت اقتدار کھو بیٹھی۔ پاکستان میں ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد پہلے جمہوری انتخابات ہوئے، اور پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آگئی۔
یوں 1988 سے 1999 کے درمیانی عرصے میں پاکستان میں جمہوری طرز حکمرانی کی واپسی دیکھنے میں آئی، لیکن ملکی سیاست عدم استحکام اور تصادم کا شکار رہی۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اقتدار میں باریاں لی، لیکن دونوں ہی بدعنوانی اور آپس کی لڑائیوں میں الجھی رہیں۔
اچانک 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کا آغاز کیا۔ جنرل مشرف کی حکومت نے معاشی ترقی اور جدیدیت کا نیا دور شروع کیا لیکن اسے اسلام پسند گروپوں اور سیاسی جماعتوں کی بڑھتی ہوئی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
جنرل مشرف کے دور میں جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے سیاسی اصلاحات کی ایک سیریز سامنے لائی گئی، بشمول مقامی حکومتوں کو اختیارات کی منتقلی اور ایک آزاد الیکشن کمیشن کا قیام اہم اصلاحات رہیں تاہم مشرف حکومت کو اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ اور اپوزیشن گروپوں اور میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
سابق صدر جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد پاکستان جمہوری طرز حکمرانی کی طرف لوٹ آیا، پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) نے باری باری اقتدار حاصل کیا۔ یہ تمام تر عرصہ سیاسی اور اقتصادی چیلنجوں کے ایک سلسلے سے عبارت تھا جن میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی، معاشی جمود اور بدعنوانی کے اسکینڈلز شامل ہیں۔
نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2017 میں کرپشن سکینڈل کے بعد ہٹا دیا گیا تھا۔ شریف کو بعد میں جیل بھیج دیا گیا اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔ پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے رہنما عمران خان کی حکومت نے 2018 میں ایک متنازعہ انتخابات کے بعد اقتدار سنبھالا۔
پی ٹی آئی کی حکومت پی ڈی ایم کے اپوزیشن اتحاد نے تحریکِ عدم اعتماد لا کر ختم کردی جسے عمران خان اب تک بیرونی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جبکہ موجودہ شہباز شریف حکومت ملک میں جاری سیاسی و معاشی عدم استحکام کا کوئی واضح حل تلاش کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
ضروری ہے کہ ملکی قیادت قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کے سیاسی ارتقاء کو بھی مدِ نظر رکھے تاکہ ملکی مسائل کا حل تلاش کرنے کے سلسلے میں جو عناصر شروع ہی سے ہماری راہ میں حائل رہے ہیں، ان کا سدِ باب کیا جاسکے۔