اصل انتہا پسند

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نریندر مودی کے دور حکومت میں بھارت میں ہندو انتہا پسندی عروج پر ہے۔ چاہے گائے کے ذبحہ کرنے پر مسلمانوں کا قتل عام ہو، امتیازی شہریت کے قوانین کے ذریعے مسلم کمیونٹی کو حق رائے دہی سے محروم کرنا ہو یا اقتدار میں رہنے والے رہنماؤں کے ذریعے فرقہ وارانہ بیانات ہوں، نفرت انگیز مسلم مخالف بیان بازی ہندوستان میں مرکزی دھارے کی گفتگو کا حصہ بن چکی ہے۔

بھارت میں اس قسم کی انتہا پسندی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندوستان کے بانی مہاتما گاندھی کو 1948 میں ایک جنونی، ناتھورام گوڈسے نے مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے خود کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ہندوتوا نے 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے دوران بڑے پیمانے پر طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا مکرہ چہرہ دکھایا تھا، جب سے نریندر مودی 2014 میں اقتدار میں آئے ہیں، ہندوتوا کا زہر اُگل رہے ہیں۔

ریاست اتراکھنڈ کا ایک حالیہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آج کے ہندوستان میں نفرت کی طاقتیں کس طرح زور زبردستی کرنے میں آزاد ہیں، ایک کنونشن میں ہندوتوا کے کچھ سردہ رہنماؤں نے شرکت کی جہاں پر انتہاء پسند ہندوؤں نے بغیر کسی روک ٹوک کے مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیں، جس پر بھارتی حکومت نے شرمناک خاموشی اختیار کئے رکھی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اتراکھنڈ کے یاتریوں کے شہر ہریدوار میں ہندوتوا کے رہنما یاتی نرسنگھ نند کی جانب سے نفرت انگیز مذہبی کنونشن کا انعقاد کیا گیا، جہاں اقلیتوں کو قتل کرنے اور ان کے مذہبی مقامات پر حملہ کرنے کے لئے متعدد کالیں کی گئیں۔ ہندو مہاسبھا کے ایک جنرل سکریٹری نے 100 کارندوں کی بھرتی کی کال جاری کی جو 20 لاکھ مسلمانوں کو مار سکتے ہیں جبکہ ایک سوامی نے ہندوستان میں میانمار جیسے مسلم مخالف قتل عام کا مطالبہ کیا۔

لیکن اس نفرت انگیز میلے کا نشانہ صرف مسلمان ہی نہیں تھے۔ ایک انتہاء پسند رہنماء نے کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ وہ سابق سکھ وزیر اعظم منموہن سنگھ کو قتل کردیتا، جبکہ دوسرے نے کہا کہ اس نے اپنے علاقے میں موجود ہوٹل مالکان سے کہا ہے کہ وہ کرسمس کی تقریبات کی میزبانی نہ کریں۔ ہندوستانی میڈیا نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ بی جے پی کے کچھ رہنماؤں نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی جس سے اس تقریب کو حکمران جماعت کی طرف سے سیاسی حوصلہ ملا۔

جس چیزکی توقع کی جارہی تھی وہی ہوا، بی جے پی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی گئی، مودی حکومت نے مذہبی جذبات کا استحصال کرکے اور فرقہ پرستی کو ہوا دے کر ملک میں قائم امن کی فضاء کو نقصان پہنچایا۔

المیہ یہ ہے کہ عالمی برادری اور عالم اسلام نسل کشی کے اس واضح اشارے پر خاموش کیوں ہے؟ یہ ہمارے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ نام نہاد معاشی مفادات کسی بھی اخلاقی ضابطے سے بالاتر ہیں۔ ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے پاس جو انتخاب چھوڑا گیا ہے وہ سخت ہے۔ لڑنا یا مارنا۔

خطرہ ہے کہ عدم برداشت کی یہ لہر جلد ہی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی جو نہ صرف ہر مذہبی اقلیت کو متاثر کرے گی بلکہ علاقائی امن کے لیے بھی نقصان دہ ہو گی۔ نئی دہلی کو دنیا کی سب سے قدیم یا سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے چہرے کے پیچھے چھپنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ اسلام کو انتہا پسندی سے جوڑا جا رہا ہے لیکن یہ لوگ اصل انتہا پسند ہیں۔ اب زیادہ اقلیتی مذہبی گروہ بی جے پی حکومت کی انتہا پسندی کا نشانہ بن رہے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا بھارت کو اس کے اعمال کا جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔

Related Posts