پاکستان کے حالات تیزی سے ابتری کی جانب گامزن ہیں ، سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان تناؤ کی وجہ سے ٹکراؤ کی سی کیفیت پیدا ہوتی نظر آرہی ہے جو پاکستان کیلئے کسی صورت سود مند نہیں ہے۔
آج جو حالات ہیں وہ اچانک پیدا نہیں ہوئے بلکہ پاکستان کو اس نہج پر پہنچنے میں کئی دہائیاں لگی ہیں اور یہ سچ ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں سے جاری پولرائزیشن کی وجہ سے ریاست کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان کا احتمال زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان کی کئی جماعتیں اور ادارے دروغ گوئی میں اپنا حصہ ڈالتی رہی ہیں جس کی وجہ سے ماضی میں افراتفری، حدت اور حرارت کا ماحول پیدا ہوا اور آج جو کچھ ہورہا ہے وہ اس کا تسلسل ہے لیکن اگر ماضی میں ایسا ماحول پیدا ہوتا تو شائد منظر نامہ تبدیل ہوتا۔
اس وقت اگر حالات کو دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شائد ہم پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ملک کیلئے بڑی بدقسمتی ہے لیکن جہاں تک اداروں کا تعلق ہے تو اداروں کی تضحیک کسی صورت مناسب طرز عمل نہیں ہے۔
سیاسی جماعتوں کو اداروں کو متنازعہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے، ہم نے پاک فوج کو بے پناہ قربانیوں اور محنت سے دنیا کی ایک بہترین فوج بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا افواج پاکستان کی معترف ہے۔
پاک فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ کسی ایک افسر کو نام لے کر نشانہ بنانا کسی طور پر درست نہیں ہے اور کسی ایک افسر کو نشانہ بناکر اس سے پورے ادارے کو منسوب کرنا بھی غلط ہے کیونکہ فرد غلط ہوسکتا ہے لیکن فرد کی وجہ سے پورے ادارے کی تضحیک درست طرز عمل نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان ایک قد آور شخصیت ہیں، عمران خان اسٹار اور دنیا کے سیلیبریٹی رہ چکے ہیں ، اس لئے دنیا بھر کا میڈیا انہیں نمایاں کوریج دیتا ہے اور جسٹن ٹروڈو جیسے لوگ بھی عمران خان پر حملے کی مذمت کا اظہار کرچکے ہیں۔اعظم سواتی جیسے معاملات بھی پاکستان کیلئے بہت خطرناک ہیں۔
پاکستان میں اہم شخصیات کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے، محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت جیسا کوئی اور واقعہ پاکستان کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا اور جیسا کہ شاعر نے دبے الفاظ میں کہا۔
دیوانے کو کیا کہیے فرزانے کو کیا کہیے؟
اتنا سا ہے افسانہ افسانے کو کیا کہیے؟
تلوار کے سائے میں ، تلوارکے پہرے میں
اس آنے کو کیا کہیے، اس جانے کو کیا کہیے؟
صورتحال کچھ اتنی گمبھیر ہوچکی ہے کہ اگر سیاسی منظر نامہ یہی رہا تو معیشت جو پہلے ہی دگرگوں ہوچکی ہے اس کا مزید بیڑہ غرق ہوجائے گا اور ساتھ ہی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خطرات بھی بڑھ جائینگے۔
ہمارے سیاستدانوں، دیگر افراد اور اداروں کے لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ دور حاضر میں فورتھ جنریشن وار کے ذریعے قوی اور طاقتور ملک جوخاص طور پر عسکری قوت رکھتا ہواور ایٹمی قوت بھی ہو، وہ بہت سی دشمن قوتوں کی نظروں میں کھٹک رہا ہوتا ہے۔
ہمارا یہی اثاثہ ہمارے مخالف ممالک کی نظر میں کانٹے کی طرح چبھتا جارہا ہے اور غیر نادانستہ طور پر کچھ لوگ اور ہمارے لیڈران اس سمت میں چل پڑے ہیں جس میں دشمن قوتوں کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔
ہمیں اس چیز کا بخوبی ادراک ہے کہ یہ حالات ہم نے خود اپنے ہاتھوں گزشتہ برسہابرس سے مخدوش کئے ہیں اور اب ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ دوسرے ممالک حالات کا باآسانی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ ہمیں عقل کے ناخن لینے چاہئیں اور میثاق جمہوریت، میثاق معیشت یا میثاق سیاست کیلئے سرجوڑ کر بیٹھنا چاہے اور کچھ لوکچھ دو کی بنیاد پر ملک کو عدم استحکام سے بچانے کی کوشش کی جائے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے اور ہم ہاتھ ملتے ہی رہ جائیں۔