پاکستانی ہیلتھ کیئر ٹیک اسٹارٹ اپ خلیجی ملکوں میں بھی خدمات انجام دے گا

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

پاکستانی ہیلتھ کیئر ٹیک اسٹارٹ اپ “میڈ آئی کیو” نے اعلان کیا ہے کہ یہ اسٹارٹ اپ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک میں ہسپتالوں اور کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں (جے وی) کے ذریعے اپنے آپریشنز کو بڑھا رہا ہے کیونکہ وہ سعودی ویژن 2030 منصوبے کے تحت مملکت کی صحت کی نگہداشت کی خدمات کو ڈیجیٹائز کرنے کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

سعودی عرب تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے وژن 2030 کے تحت اپنی معیشت کو جدید خطوط پر مستحکم کر رہا ہے اور اس کا مقصد مملکت میں صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، تفریح اور سیاحت جیسے عوامی خدمات کے شعبوں کو ترقی دینا ہے۔ مملکت کا مقصد صحت کے شعبے کی تنظیمِ نو کرنا ہے اور وہ ان بلند پایہ اہداف کو پورا کرنے کے لیے ہیلتھ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

سعودی عرب کا لڑاکا طیارہ تربیتی مشن کے دوران گر کر تباہ

یارکشائر یونیورسٹی سے ہیلتھ اکنامکس میں پی ایچ ڈی کرنے والی پاکستانی ڈاکٹر سائرہ صدیقی نے تقریباً ساڑھے تین سال قبل پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں “میڈ آئی کیو” کا آغاز کیا تھا۔ اس سٹارٹ اپ کا مقصد ڈیجیٹل طور پر فعال ہائبرڈ ایکو سسٹم کے ذریعے صحت کی نگہداشت کی تعریفِ نو کرنا ہے اور اس وقت یہ پاکستان، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور کینیڈا میں کام کر رہا ہے۔

ڈاکٹر سائرہ صدیقی نے عرب نیوز کو بتایا “ہم نے پاکستان میں جو حل تیار کیے ہیں، وہ یہاں کی نسبت سعودی عرب میں زیادہ استعمال کیے جا رہے ہیں کیونکہ پاکستان کو صحت کی نگہداشت کی خدمات کی ڈیجیٹائزیشن میں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔” انہوں نے کہا کہ میڈ آئی کیو صحت کی نگہداشت کو مزید مریض دوست، باہم مربوط اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ سسٹم میں تمام فریقین صحت کی نگہداشت کی خدمات ٹیکنالوجی کے ذریعے مؤثر طریقے سے فراہم کریں۔

صدیقی نے کہا کہ سعودی ویژن 2030 کے اہم شعبوں میں سے ایک ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے صحت کی نگہداشت کی خدمات کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2023 کے لیے صحت کا بجٹ 180 بلین سعودی ریال ہے جس میں ہسپتال کے صحت کی نگہداشت کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن، دور دراز سے مریضوں کی نگرانی اور آن لائن خدمات کی فراہمی پر توجہ دی گئی ہے۔

صدیقی نے کہا، “میڈ آئی کیو دراصل سافٹ ویئر تیار کر رہا ہے جو ہارڈ ویئر، معلومات، مریض اور انسانی وسائل کو صحت کی نگہداشت کی خدمات فراہم کرنے والے افراد کو ایک ساتھ جوڑ رہا ہے۔”

پاکستانی اسٹارٹ اپ کی بانی نے کہا کہ مملکت کی مارکیٹ میں اپنی رسائی کو بڑھانے کے لیے میڈ آئی کیو نے بڑے سعودی گروپس اور مختلف ہولڈنگ کمپنیوں کے ساتھ مختلف مصنوعات کے لیے مشترکہ منصوبے شروع کر کے ان سے تعاون کیا ہے۔

صدیقی نے بتایا کہ “ہم المانہ ہسپتال کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور پھر ہم ایلم کے ساتھ ایک پروجیکٹ پر بھی کام کر رہے ہیں جو ان کی وزارت ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ میڈ آئی کیو ممتاز ڈاکٹر سلیمان الحبیب ہسپتال کے ساتھ بھی اشتراک کر رہا ہے۔

صدیقی نے کہا کہ ان کا اسٹارٹ اپ اس وقت سعودی عرب میں سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ ایک درمیانی درجے کی ہسپتال چین اور ایک اعلیٰ درجے کی ہسپتال چین کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا۔ میڈ آئی کیو متحدہ عرب امارات میں بھی بہت فعال ہے اور تندرستی اور طرزِ زندگی میں تبدیلی کی ٹیکنالوجی سے چلنے والی مصنوعات کو ترجیح دے رہا ہے جس سے طرز عمل میں تبدیلیاں لانے کے لیے ورچوئل اور اضافہ شدہ حقیقت کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا “اب ہم متحدہ عرب امارات اور سعودی مملکت سے آگے خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے باقی ممالک تک توسیع کا ارادہ رکھتے ہیں۔”

صدیقی نے کہا کہ ان کے ہیلتھ کیئر ٹیکنالوجی سافٹ ویئر کا ردعمل “غیر معمولی” تھا کیونکہ اس نے گذشتہ تین سالوں کے دوران عالمی سطح پر 2.5 ملین سے زیادہ صارفین کو محفوظ کیا ہے۔

صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کو اپنانا کم ہے لیکن متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب صحت کی نگہداشت کی ٹیکنالوجیز پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی۔ “سو ہمیں بہتر نشوونما اور جی سی سی مارکیٹ کی طرف سے زیادہ سازگار ردعمل مل رہا ہے۔”

صدیقی نے کہا کہ خواتین بہت بڑی تعداد میں ان کی مصنوعات کی صارفین ہیں کیونکہ پاکستان اور مشرق وسطیٰ میں مرد ساتھیوں کے بغیر ہسپتال جانا ان کے لیے عموماً مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا۔ “ہمارے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق ہمارے صارفین میں سے تقریباً 74 فیصد خواتین ہیں اور وہ خواتین جن کے بچے یا زیرِ کفالت افراد ہیں جیسے بوڑھے والدین۔”