معروف صحافی عمران ریاض خان کو لاپتہ ہوئے 100 دن سے زائد گزر گئے، مگر تاحال ان کا کچھ علم نہیں۔
لاپتہ صحافی کے وکیل میاں علی اشفاق نے منصور علی خان کے ساتھ ایک پوڈ کاسٹ میں عمران ریاض کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے کی کوششوں پر بات کی۔
میاں اشفاق علی کا کہنا ہے کہ عمران ریاض خان کے لاپتہ ہونے کے بعد سے انہوں نے ان سے کوئی رابطہ یا ملاقات نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے امید تھی کہ عمران ریاض کو عیدالاضحیٰ تک رہا کر دیا جائے گا۔
ویسے اگر میں غلط نہیں تو انہی صاحب نے عمران ریاض کو لونڈا لپاڑا یوٹیوبر نہیں کہا تھا؟ pic.twitter.com/sAF4Zu50AR
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) August 28, 2023
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا لاپتہ صحافی سے کوئی رابطہ ہے، تو میاں اشفاق علی نے واضح طور پر اس دعوے کی تردید کی۔
انہوں نے کہا کہ عمران ریاض کے لاپتہ ہونے کے بعد سے ان کے والد، والدہ یا اہلیہ نے صحافی سے فون پر بات یا ملاقات نہیں کی۔
میاں اشفاق نے کہا کہ ایف آئی اے نے عمران ریاض کو 22 جون کو پیش ہونے کا کال اپ نوٹس بھیجا اور انہیں 26 جون کو پیش ہونے کا کہا، یہ جانتے ہوئے کہ وہ لاپتہ ہیں۔
میاں اشفاق نے ان الزامات کا بھی جواب دیا کہ وہ کیس لڑنے اور عمران ریاض کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے کافی کام نہیں کر رہے۔
🇵🇰 Pakistan: The practice of enforced disappearance has a devastating impact on the families of the disappeared. The families must be informed of the fate and whereabouts of their missing loved ones.
Imran Riaz Khan was disappeared on 11 May 2023#EndEnforcedDisappearances pic.twitter.com/fT1DznD049
— Amnesty International South Asia, Regional Office (@amnestysasia) August 25, 2023
یہ الزامات لندن میں مقیم یوٹیوبر عادل راجہ نے لگائے جن کا کہنا تھا کہ میاں اشفاق اپنی کوششوں میں مخلص نہیں تھے۔
It is really sad Imran Riaz is still missing ..CPJ calls for his release to mark 100 days of Imran riaz khan disappearance https://t.co/BnBxpeaj2Q
— Sami Abraham (@samiabrahim) August 19, 2023
انہوں نے کہا کہ عادل راجہ نے کبھی کوئی مقدمہ نہیں لڑا۔ 5000 میل دور بیٹھ کر انگلی اٹھانا بہت آسان ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کی اور پولیس کو صحافی عمران ریاض خان کی تلاش کے لیے 25 جولائی تک کی مہلت دی، جن کا 11 مئی کو گرفتاری کے بعد سے کوئی معلوم نہیں، تاہم عدالت نے مزید سماعت نہیں کی۔
یہ حکم لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے صحافی عمران ریاض کو تلاش کرنے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے دیا، جو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں پھوٹنے والے مظاہروں کے تناظر میں گرفتار افراد میں شامل ہیں۔
اس معاملے سے متعلق فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) اینکر پرسن کے والد محمد ریاض کی شکایت پر سول لائنز پولیس میں 16 مئی کو درج کی گئی۔
ایف آئی آر ”نامعلوم افراد” اور پولیس اہلکاروں کے خلاف مبینہ طور پر عمران ریاض کو اغوا کرنے، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 365 کے تحت درج کی گئی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کو بتایا گیا کہ اس کیس میں کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور توقع ہے کہ اینکر پرسن اگلے چند دنوں میں بحفاظت بازیاب ہو جائیں گے۔
سیالکوٹ پولیس سٹیشن میں درج کرائی گئی اپنی شکایت میں عمران ریاض کے والد نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے بیٹے کو اغوا کیا ہے انہوں نے اس کی جلد اور محفوظ رہائی کی درخواست کی۔
عمران ریاض خان اُس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے حامی تھے۔ اپریل 2022 میں عمران کو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد، صحافی نے ان اداروں پر کڑی تنقید شروع کردی تھی جن پر سابق وزیر اعظم نے الزام لگایا تھا کہ ان کی برطرفی کے پیچھے ہاتھ تھا۔