پاکستان کی سیاست میں ایک دوسرے کو زیر کرنے اور غداری جیسے القاب سے نوازنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ سیاسی عمائدین پر دہشت گردی حتیٰ کہ کفر کے فتوے بھی لگتے رہے ہیں اور ان دنوں پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی اور غداری جیسے سنگین الزامات کی گونج ہر سو سنائی دیتی ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں دہشت گردی کا مطلب سمجھنا ہوگا۔
اقوام متحدہ بھی اب تک رکن ممالک کو دہشت گردی کی کسی ایک تعریف پر قائل نہیں کرسکی کیونکہ دہشت گردی کی ایسی تعریف جو ہر لحاظ سے مکمل اور ہر موقع پر سو فیصد اتفاق رائے سے لاگو کی جا سکے، اگر ناممکن نہیں تو کم از کم انتہائی مشکل ہے۔ عالمی برادری کا کہنا ہے کہ اپنے حقِ خود ارادیت کیلئے لڑنا دہشت گردی نہیں ہے۔ کچھ ممالک اسے دہشت گردی سمجھتے ہیں جبکہ ایسے حقوق کو حاصل کرنے کیلئے اقوامِ متحدہ کی مختلف قراردادوں میں اس کی اجازت ہے۔
اگر ہم اپنے ہی ملکی قوانین کو دیکھیں تو خوف و ہراس پیدا کرکے اپنے مقاصد کا حصول بھی دہشت گردی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔یہاں یہ بھی مانا جاتا ہے کہ شدت پسند عام طور پر یہ چاہتے ہیں کہ انھیں بہت سے لوگ دیکھیں نہ کہ بہت سے لوگ مر جائیں کیونکہ ان کا اصل مقصد صرف نقصان ہی نہیں بلکہ خوف و ہراس پیدا کرنا ہوتا ہے۔
اب یہاں دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکمراں اقوام عالم کے سامنے زمان پارک میں چھپے تحریکِ انصاف کے کارکنان کو ، جن کا تخمینہ 40 تک لگایا گیا، انہیں دہشت گردوں میں شامل کروانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہماری سیکورٹی فورسز نے زمان پارک کا گھیراؤ کر رکھا ہے اور ہر طرف شور برپا ہے تو ایسے میں کیونکر ممکن ہے کہ مطلوبہ ملزمان اندر ہی بیٹھے رہیں اور عمران خان اتنے بے وقوف تو ہو نہیں سکتے کہ انتہائی نازک صورتحال میں بھی اپنے گھر میں دہشت گردوں کو چھپاکر رکھیں گے۔البتہ یہ ہماری سیاست میں ایک وطیرہ رہا ہے کہ لڑنے بھڑنے والے اور جنگجو قسم کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے ایسے اقدامات بھی اٹھائے جاتے ہیں جن کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت دہشت گردی کے زمرے میں ہی لیا جاتا ہے۔
پاکستان کے انسداد ِدہشت گردی ایکٹ کے تحت 9 مئی کو ہونیوالے واقعات ہمارے قانون کے مطابق دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔عمران خان کے بیانات اور پی ٹی آئی کی دیگر قیادت نے جس طرح لوگوں کو مبینہ طور پر کور کمانڈر ہاؤس اور دیگر تنصیبات پر حملے کیلئے دعوت دی یہ سب مواد کارروائی کیلئے کافی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دنوں جو ہوا اور اس کے بعد ریاست کی طرف سے دہشت گردی کے مقدمات کی طرف جانے سے پہلے دہشت گردی اور آزادی کی تحریکوں میں فرق کو سمجھنا نہایت ہی ضروری ہے ۔
جیسا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر اور فلسطین میں عوام اپنے حقوق اور آزادی کی جنگ لڑ رہے اور لاکھوں کی قابض فوج کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اب تک ہزاروں کشمیری اور فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوچکی ہیں اور یہاں اگر عوام اپنے حق کیلئے ہتھیار اٹھاتے ہیں تو اس کو دہشت گردی نہیں کہا جاسکتا۔
ویسے تو دہشت گردی کا مقصد معصوم انسانوں کو جانی نقصان پہنچا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل ہوتا ہے۔ دہشت گرد درحقیقت کسی دوسری طاقت کی پراکسی بھی ہوسکتے ہیں۔ دہشت گردی میں اکثر ایسی صورت دیکھی گئی ہے کہ جو زیر زمین اور پوشیدہ رہ کر اپنا وجود منواتی ہے جبکہ آزادی کی جدو جہد کی کئی صورتیں ، کئی چہرے اور مہرے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ دنوں ہونے والے شرانگیزی کے واقعات کو اگر وسیع نظر سے دیکھیں تو اس میں گریٹر اسرائیل، گریٹ گیم اور ففتھ جنریشن وار سمیت دیگر عالمی سازشوں اور خدشات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم تمام تر چیزوں کے باوجود صورتحال کا درست ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے بقول شاعر:
ناکردہ گناہی کی ہمیں داد ملے گی
ہم لوگ خطا وار ہمیشہ نہ رہیں گے
رِستے ہوئے زخموں کی زباں بول رہی ہے
یہ درد یہ آزار ہمیشہ نہ رہیں گے
جس طرح لاہور ہائیکورٹ نے استعفوں سے متعلق فیصلہ دیا ہے، امید ہے کہ اس سے سیاسی استحکام میں مدد ملے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو ہوا اس کو ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ آگے کیلئے سمت کا تعین کیا جائے اور ملک و قوم کو مشکلات کی دلدل سے نکالنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔
ایک طرف تو عمران خان کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومت گرائی اور دوسری جانب امریکا کی طرف سے غیر ملکی مداخلت اور بیرونی سازش کا بیانیہ بھی تشکیل دیا گیا جس سے پاک امریکا تعلقات کو زک پہنچی اور اب عمران خان کی لیک آڈیو میں انہیں ایک امریکی کانگریس رکن خاتون سے امداد مانگتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔ شاید عمران خان اپنا مقدمہ مضبوط کرکے دنیا کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ امریکی وزارتِ خارجہ میں آواز اٹھا سکیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے امریکی کانگریس رکن سے گفتگو کی۔ مجھ سمیت بیشتر پاکستانیوں کا یہ ماننا ہے کہ ایسی کوئی بات عمران خان یا مستقبل میں اس قوم کا کوئی بھی فرد کرے تو یہ کوئی دانائی کی نہیں بلکہ تضحیک والی بات ہے جبکہ کسی بھی قوم کے سیاسی رہنما کی جانب سے ایسی گفتگو تو اور بھی قابلِ مذمت ہے، بقول شاعر:
نظر کا تیر جگر میں رہے تو اچھا ہے
یہ گھر کی بات ہے، گھر میں رہے تو اچھا ہے
عمران خان جیسے قدآور سیاسی رہنما کو گھر کی باتیں باہر بتا کر ان سے مدد نہیں مانگنی چاہئے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پہلے سے ہی یہ رجحان موجود ہے کہ کوئی سعودی عرب، کوئی متحدہ عرب امارات اورکوئی امریکا کی طرف دیکھتا ہے اور اب یہ معاملہ بتدریج بڑھتا جارہا ہے۔ اس سے اقوامِ عالم میں ہماری وقعت کم ہورہی ہے۔ ہم اتنے کمزور ہوتے جارہے ہیں کہ باہر سے لوگ آ کر ہمیں ڈکٹیشن دینا شروع کردیتے ہیں۔ زلمے خلیل زا د کا کیا کام کہ وہ ہمارے آرمی چیف یا کسی اور اعلیٰ افسر کے بارے میں بات کرے۔
زلمے خلیل زاد تو سابق سفارت کار ہیں، اس لیے ان کی زیادہ اہمیت نہیں تاہم امریکی کانگریس کے لوگوں پر تو اقوامِ متحدہ کے اصول بھی منطبق کیے جاسکتے ہیں۔ وہاں کانگریس کے اسپیکر کو بھی بتانا چاہئے کہ اس قسم کی بات اقوامِ متحدہ چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ اس لیے اگر کانگریس کے لوگ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کریں تو پاکستان عالمی سطح پر اس کے خلاف آواز بلند کرسکتا ہے اور کرنی بھی چاہئے۔
ہمارے لیے کسی بھی بیرونی ملک کی باتیں سننا شرمناک ہے۔ جون بولٹن نے بھی عمران خان کے حق میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عدم استحکام ہے اور عمران خان کے خلاف اقدامات سے مزید بڑھ گئی ہے، ہمارےاپنے ملک کی باتیں کرنے کا حق تو صرف وطنِ عزیز کے افراد کو ہی ہے ۔یہ سراسر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جائے۔ پاکستان کے سرکردہ حکام کو اس کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرکے اس قابلِ مذمت صورتحال کا تدارک کرنا ہوگا۔