پاکستان کے دگرگوں حالات روز بروز مسائل کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جارہے ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاملات ٹکراؤ کی طرف جارہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کو پارلیمنٹ میں لاکر قرار دادوں کے ذریعے مسترد کرتی جائیگی۔
یہ گمان موجود ہے کہ حکومت تمام ذرائع سے سپریم کورٹ کو باور کروانے کی کوشش کریگی کہ پارلیمنٹ عدلیہ سے زیادہ طاقتور ہے اور آئندہ عدالتی فیصلوں میں ممکن ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی مزید شدت اختیار کرجائے۔
اس بات سے قطع نظر کہ سپریم کورٹ نے کیوں فل بینچ نہیں بنایا، کچھ سفیر ساتھی اس بات پر پریشان ہیں کہ آخر ایسا کیا مسئلہ تھا کہ ایسے انتہائی اہم اور حساس سیاسی معاملے میں فل بینچ نہیں بنایا گیا جب پورے ملک کی نظریں عدلیہ کی طرف لگی ہوئیں تھیں لیکن یہ ایک الگ اور ساتھ ہی عقل کو دنگ کرنی والی بحث ہے۔
اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاک فوج کے سربراہ جنرل سیّد عاصم منیر بھی اس بات کا اعادہ کررہے ہیں کہ “طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں” لیکن وطن عزیز میں بسنے والے افراد کی فکر یہ ہے کہ عوام فاقہ کشی پر مجبور ہیں، مسائل کے مارے عوام سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔ملک میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، لوگوں کی قوتِ خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔
قومی سلامتی کمیٹی میں آرمی چیف نے آئین کی گولڈن جوبلی پر مبارکباد دی اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی مبارکباد دی، اس پر ججوں میں اختلافات سامنے آئے اور نکتہ چینی بھی کی گئی جس سے عدلیہ میں انتشار اور تقسیم کی باتوں کو تقویت ملی ہے۔
پاکستان کے حالات جتنے نظر آتے ہیں اس سے کم خراب نہیں کیونکہ ہر ادارہ تقسیم اور انتشار کا شکار نظر آتا ہے اور جب غیر ملکی سفرا اپنے ممالک میں پاکستان کے حوالے سے رپورٹس ارسال کرینگے تو اس سے پاکستان کی ساکھ کو بے انتہا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ سویڈن نے پاکستان میں اپنا سفارتخانہ بند کردیا ہے اور ایسے میں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سفارتی محاذ میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہماری مخدوش سفارتی پوزیشن کے بعد کیسے ہم کسی سے شکوہ کرسکتے ہیں کہ دنیا ہمارا ساتھ نہیں دیتی اور کشمیر و فلسطین کے مسئلے پر اقوام عالم ہمارے مؤقف پر کیوں کھڑی نہیں ہوتی۔
ہمیں اللہ کا شکر کرنا چاہیے کہ گزشتہ سال ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل آئے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات دگرگوں ہیں، گوکہ کچھ اچھی خبریں آرہی ہیں لیکن معاملات جب تک فائنل نہیں ہوتے کچھ بھی حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں ہے۔
ہمارے آئین کی ابتدائی عبارت میں بھی تذکرہ ہے کہ حاکم صرف اور صرف اللہ ربّ العزت کی ذات ہے ، لیکن دنیا کے مہذب ممالک میں جہاں آئین اور قانون ہو وہاں “طاقت کا سرچشمہ عوام” اور منتخب ایوان ہوتا ہے لیکن جب عدلیہ کو متنازعہ بنادیا جائے تو سپریم کورٹ چاہے اسٹیٹ بینک کو جتنے مرضی احکامات دیدے، پیسے ملنا ممکن نہیں جس کے بعد ٹکراؤ اور تصادم کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔
پنجاب میں انتخابات کا انعقاد اس وقت غیر یقینی ہے کیونکہ حکومت اور اداروں کے متنازعہ بیانات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شاید ابھی انتخابات کا انعقاد نہ ہو، اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب الیکشن سے قبل نگراں حکومت آئے گی تو اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا یعنی دوصوبوں میں حکومت موجود ہوگی اور اپنی مدت پوری کریگی تو ایسے میں عام انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والی جماعتوں کو یہ جواز مل جائیگا کہ دو صوبوں میں حکومت پی ٹی اآئی کی تھی جس کی وجہ سے الیکشن کے نتائج میں ردوبدل کیا گیا۔
اس وقت جو متزلزل حالات چل رہے ہیں اس میں زیرک سیاستدانوں کو آگے بڑھ کر معاملات کا سنبھالنے کیلئے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ
بقول شاعر
پیغامِ صبحِ نو کا فسوں ٹوٹ کر رہا
شیرازہِ بہارِ گلستان بکھر گیا
لوگ اس وقت منتظر ہیں کہ کوئی نسیمِ صبح کا جھونکا آئے اور تمام قوتوں کو یکجا کرکے بات چیت کی طرف لے کر جائے تاکہ کشیدگی میں کچھ کمی ممکن ہوسکے۔
جہاں تک آئی ایم ایف سے قرضوں کے اجراء کا معاملہ ہے تو اس سے عوام کو توشاید کوئی ریلیف ممکن نہ ہو کیونکہ اعداد و شمار ہمیں زیادہ امیدیں لگانے کی اجازت نہیں دیتے۔
آئی ایم ایف نے موجودہ پروگرام ختم ہونے سے پہلے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کو کم ضرور کہا ہے لیکن ساتھ ہی اپنی بات کو گول گھماتے ہوئے سری لنکا اور گھانا تک نہ پہنچنے کی امید بھی ظاہر کی ہے ۔
ہم امید کرسکتے ہیں کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام شاید کسی نہ کسی طرح ہچکولے کھاتا ہوا جون تک پہنچ ہی جائیگا لیکن معاشی اشاریے دیکھیں تو تشویش بڑھ جاتی ہے کیونکہ عالمی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 65 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔
اگر ہم اس سے اتفاق نہ بھی کریں تو بھوک اور افلاس کے اشاریے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بھوک اور افلاس میں دنیا کے 121 ممالک میں 99 نمبر پر ہے اور 16 اعشاریہ 6 ملین لوگوں کو فوری طور پر فوڈ ریلیف چاہیے اور اس پر قیامت یہ کہ ہمیں اگلے 3 ماہ میں 8 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے۔
ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم 131 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں ۔ سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کیلئے سب سے مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کئی راستے موجود ہیں جو معاشی استحکام کی طرف جاتے ہیں لیکن اس راستے پر قدم رکھنے کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر :ہے کیونکہ بقول شاعر
سانس ٹوٹ جاتی ہے آس ٹوٹ جانے سے
اگر اب بھی ہمارے اداروں اور سیاسی ودیگر اکابرین نے ہوش کے ناخن نہ لیے اورمخدوشیت کی سرحدوں کو چھوتے حالات کو بچاؤ کی ڈگر پر نہ ڈالا تو ہمارے پاس افسوس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔