مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لوگ کہتے ہیں کہ شاعری مرزا غالب، میر اور علامہ اقبال کے دور میں ہوا کرتی تھی، آج کل شعر گوئی رہ گئی ہے، شاعری ختم ہوگئی۔ شعر کہنے والے چلے گئے اور شاعری کا فن بھی اپنے ساتھ ہی لے کر منوں مٹی تلے جا سوئے۔ آج کل شاعری نہ کوئی کرتا ہے، نہ پڑھتا ہے اور نہ ہی سنتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ شاعری سیکھی نہیں جاسکتی اور شاعر بنائے نہیں جاتے بلکہ وہ پیدا ہوتے ہیں تاہم بہت سی ایسی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں لوگوں نے شاعری کو فن کے طور پر سیکھا اور آہستہ آہستہ اس پر مہارت حاصل کر لی، یہ الگ بات کہ کسی کو شاعری میں کم کامیابی ملی تو کسی کو زیادہ مل گئی۔

جہاں تک شاعری کی مقبولیت کم ہونے کا تعلق ہے تو ایسے بے شمار شوق ہیں جو کم ہی لوگوں کو پسند آتے ہیں جن میں جانور پالنا، باغبانی اور ڈاک ٹکٹ جمع کرنے جیسے مشاغل شامل ہیں لیکن جب تک یہ شوق پالنے والے زندہ ہیں، انہیں ختم نہیں کیاجاسکتا تاہم شاعری کی اہمیت ان معاملات سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ ادب تخلیق کرتی ہے جو زبان کو فروغ دیتا ہے۔

یہ بات بالکل سچ سہی کہ اردو نے انگریزی کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لیا اور ہم نے قمیض شلوار کی جگہ پینٹ شرٹ اور کوٹ کو اپنا شعار بنا لیا ہے لیکن زندہ قوموں کی اپنی الگ شناخت اور پہچان ہوا کرتی ہے جیسے پاکستانی قوم کی پہچان اس کی قومی زبان اردو ہے جس کے فروغ میں شاعری کا کردار فراموش نہیں کیاجاسکتا۔

اگر پاکستانی قوم شاعری کی اہمیت سمجھنا چاہتی ہے تو اسے علامہ اقبال کو سمجھنا ہوگا جس نے تحریکِ آزادی کو فروغ دینے کیلئے ایسی جاندار، متاثر کن اور دل کو چھو لینے والی شاعری کی جو ہر مسلمان کے دل کی آواز بن گئی۔ ہر مسلمان اقبال کا شاہین اور مردِ مومن بننے پر تل گیا اور یہی وہ جذبہ تھا جو 14اگست 1947 کو قیامِ پاکستان پر منتج ہوا۔

آج کل سوشل میڈیا پر اپنی مرضی سے اردو کے جملوں کو بے ترتیبی سے 2 لائنوں میں تحریر کر کے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ شاعری ہے اور بے شمار لوگ اس نام نہاد شاعری کے نیچے علامہ اقبال کا نام لکھا دیکھ کر اسے اندھا دھند شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں اور کوئی حقیقت پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔

اگر آپ شاعر نہیں ہیں تو کسی شعر گوئی سے واقفیت رکھنے والے سے یا اردو پڑھانے والے کسی استاد سے پوچھ لیجئے، وہ بتا دے گا کہ جن 2 سطور کو آپ شعر سمجھ رہے ہیں، وہ نثر بھی کہلانے کے لائق نہیں ہیں اور  انہیں علامہ اقبال سے منسوب کرنا حکیم الامت کی روح سے سنگین مذاق کے مترادف ہے۔

جو لوگ شاعری سے شغف رکھتے ہیں، اچھے اچھے شعراء کے شعر پڑھتے، ان کو سمجھتے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ لفظوں کی خوبصورتی، گہرائی اور گیرائی کو سمجھتے ہیں، اس لیے ایسے لوگ کوشش کرکے اچھے شعر کہنے کی صلاحیت بھی پیدا کرسکتے ہیں۔

شاعری اپنے آپ میں کسی کائنات سے کم نہیں کیونکہ جو ایک بار اس شوق کو سینے سے لگا لیتا ہے، اس کے طلسم سے کبھی باہر نہیں نکل سکتا۔ اسے اچھے سے اچھے الفاظ میں اپنے جذبات کو لکھنا اور لفظوں کو حقیقت میں بدلتے دیکھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ زندگی کی روزمرہ ضروریات کیلئے دوڑ دھوپ اور اپنے بیوی بچوں کیلئے دل و جان سے سخت محنت کے ساتھ ساتھ کچھ وقت اردو زبان کی نثر اور شاعری کو بھی دیا جائے تاکہ ہم تیز رفتار زمانے کے ساتھ چلتے چلتے اپنی پہچان اور شناخت سے دور نہ چلے جائیں۔

 

Related Posts