رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سے ایک اہم حق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے، ایسی محبت جو تمام محبتوں سے فائق ہو، جو مومن کے رگ و ریشہ میں سمائی ہوئی ہو، خدا کے بعد اس درجہ کی محبت میں کوئی اور شریک نہ ہو، ایسی محبت جو اپنی ذات، اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہو، جس میں وارفتگی، جاں نثاری، فدائیت اور خود سپردگی ہو، جس محبت کا سایہ محبوب کے تمام متعلقین تک وسیع ہو۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص اس وقت صاحب ِایمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کے دل میں میری محبت اپنی ذات سے، اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد سے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر نہ ہوجائے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے واقعی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی محبت کرکے دکھائی، جو صرف زبان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان و اولاد کو قربان کرنے کا دعویٰ نہیں کرتے تھے، بلکہ عمل سے اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے تھے اور اپنی جان اور اولاد کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اس خوشی سے نچھاور کرتے تھے کہ گویا ان کی جان کی قیمت وصول ہوگئی۔
حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل مکہ کے ہاتھ آجاتے ہیں، بعض لوگ جن کے مورثِ اعلیٰ غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے تھے، قصاص و انتقام کے طورپر انھیں خرید لیتے ہیں، پھر مکہ سے باہر ایک انبوہ کے ساتھ انھیں لے جایا جاتا ہے اور اذیت پہنچا پہنچا کر سولی پر چڑھایا جاتا ہے، عین اس وقت جب آزمائش کا یہ پہاڑ اس مردِ مومن کے اوپر ڈھایا جا رہا تھا، پوچھا جاتا ہے: کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ آج تمہاری جگہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) ہوتے اور تم اس مصیبت سے بچ جاتے؟ حالاںکہ ایسی مصیبت کے وقت میں دل کے اطمینان کے ساتھ زبان سے کلمہ کفر ادا کرلینے کی بھی اجازت ہے۔ (الموسوعة الفقہیہ) لیکن حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جذبہ محبت پر قربان جائیے کہ اس وقت بھی فرماتے ہیں: ”خدائے عظیم کی قسم! مجھے تویہ بھی گوارا نہیں کہ اس تکلیف سے بچ جاوں اور میرے آقا کے قدم مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھے۔“ (البدایہ والنہایہ)
حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابوسفیان کی گرفت میں ہیں، جو اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے، زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کی تیاری ہورہی ہے اور سرقلم کیے جانے کو چند لمحہ رہ گیا ہے، اتنے میں ابوسفیان نے استفسار کیا: اے زید! میں تم سے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ اس وقت تمہارے بجائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہاں ہوتے، ہم ان کا سرکاٹ لئے ہوتے اور تم اپنے گھر میں آرام سے ہوتے۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عین تلوار کی چھاو¿ں میں فرمایا: ”مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ اس وقت میں اس تکلیف سے بچ کر اپنے گھر میں رہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں رہتے ہوئے ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔“ (البدایہ والنہایہ)
غزوہ بدر کے موقع سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں خود ان کے صاحبزادے سامنے تھے، جو ابھی کفر کی حالت میں تھے، وقت گزرا، یہاں تک کے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی توفیق عطا فرمائی، پھر صاحبزادے نے عرض کیا: ابا جان! غزوہ بدر میں ایک وقت ایسا آیا کہ آپ میرے نرغے میں آئے تھے، لیکن باپ کی محبت غالب آگئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”لیکن اسلام و کفر کی اس جنگ میں اگر تم میرے نرغے میں آگئے ہوتے تو میں تمہیں معاف نہیں کرتا۔“ (الاستیعاب)
عبداللہ بن ابی خود منافق تھا، ان کے لڑکے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مخلص تھے، ان پر اپنے والد کا منافق ہونا بھی ظاہر تھا، مدینہ میں افواہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نفاق کی وجہ سے ان کے قتل کا حکم دینے والے ہیں، جب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ سنا ہے کہ آپ میرے والد کے قتل کا حکم دینے والے ہیں، اگر آپ کا یہ منشا ہوتو میں خود اپنے والد کا سرقلم کرکے آپ صلی اللہ علیک وسلم کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اولاد اور والدین کی محبت پر غالب تھی اور جو چیز آپ کو محبوب ہوتی وہ انھیں اپنی مرغوبات سے زیادہ عزیز ہوتیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے تقاضے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام متعلقین سے محبت ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے محبت ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہو، یہ محبت کا فطری تقاضا ہے کہ جو چیز عزیز ہوتی ہے اس سے تعلق رکھنے والی ساری ہی چیزیں انسان کو عزیز ہوتی ہیں، اس لئے سلف صالحین اہل بیت سے بھی محبت رکھتے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی، اہل بیت سے محبت نہ ہو اور ان کی توقیر و احترام کا جذبہ نہ ہوتو یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کما حقہ محبت سے محرومی ہے ؛ کیوںکہ اہل بیت کی محبت اس نسبت کی وجہ سے ہے جو انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہے اور ان کی محبت سے محروم ہونا اس نسبت کی ناقدری ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ رفقاءہیں، جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی سربلندی کےلئے اپنے جان و مال کی قربانی دی ہے، جن کو براہِ راست صحبت ِنبوی سے فیض اٹھانے کا موقع ملا ہے، جو بلا واسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرداختہ اور تربیت یافتہ ہیں، ان سے بغض رکھنا یا ان کی تنقیص کرنا دراصل بالواسطہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر حرف گیری کرنا ہے؛ اسی لئے اہل سنت و الجماعت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم قابل احترام اور قابل محبت ہیں اور یہ سب کے سب مسلمانوں کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی شامل ہے ؛ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نے اس امت کو ایک عالم گیر اور آفاقی خاندان بنا دیا ہے۔ افسوس کہ امت کے ایک وسیع خاندان ہونے کا تصور ہمارے ذہنوں سے نکل گیا اور مسلکوں، تنظیموں، جماعتوں، درسگاہوں، خانقاہی نسبتوں، علاقوں، زبانوں، پیشوں اور برداریوں کے دائرہ میں ہماری محبت سکڑ کر رہ گئی ہے، ہم نے اس حقیقت کو بھلا دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ایک ایک فرد سے محبت فرماتے تھے، نہ عرب و عجم کی تفریق تھی، نہ کالے گورے کی تمیز، نہ مہاجرین و انصار کی تفریق، نہ دولت مندوں اور غریبوں میں امتیاز۔ کاش ! مسلمان اس حقیقت پر توجہ دیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک امت بنایا تھا، لیکن آج ہم نے اپنے درمیان فرقہ واریت اور گروہ بندی کی اتنی اونچی دیوار کھینچ لی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھنے سے بھی قاصر ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ ہمیں اس امت سے بھی محبت ہو، جس امت کی تشکیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا ایک مظہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں سے محبت ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کےلئے اسوہ اور نمونہ بنایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو قیامت تک کےلئے محفوظ کردیا ہے۔ عبادت و بندگی، اخلاق و سلوک، خاندانی زندگی کے آداب، تجارت اور کسب معاش کے طریقے، حکومت اور ملکی نظم و نسق، جنگی مہمات، ازدواجی زندگی، اعزہ و اقارب کے ساتھ برتاو، بڑوں اور چھوٹوں کے ساتھ رویہ، دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ سلوک، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، سفر و حضر اور جلوت و خلوت، تعلیم و تعلم، عدل و قضا اور احکام شرعیہ کی رہنمائی، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ موجود و محفوظ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو پامال کرنا اور نبی کی مرضیات کے مقابل اپنی خواہشات کو ترجیح دینا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت کا دعویدار ہونا آگ اور پانی کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کے بغیر محض زبان سے محبت کا دعویٰ کرنا کافی نہیں ہے!
تحریر: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی