ملک بھر میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت پر ہر شہری آواز اٹھاتا ہے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ سڑک پر آج جتنی بھی لاقانونیت، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور حد سے زیادہ تیز رفتاری نظر آتی ہے، اس میں قصور سراسر ہمارا اپنا ہے۔
پاکستان میں حال ہی میں وفاقی وزیرِ مذہبی مفتی عبدالشکور کی ایک المناک سڑک حادثے میں ہلاکت نے ملک کی سڑکوں پر لاقانونیت کا مسئلہ ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ پاکستان دنیا میں سڑک حادثات کی سب سے زیادہ شرح رکھنے والا ملک ہے جہاں ہر سال لاپرواہی، تیز رفتاری اور ٹریفک قوانین کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔
مفتی عبدالشکور کی موت اس بات کی یاددہانی ہے کہ پاکستان کی سڑکوں پر کسی بھی شخص کی جان محفوظ نہیں ہے، خواہ اس کا معاشرے میں کوئی بھی مقام ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کار نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری وہ اس زون میں 110 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی تھی جہاں رفتار کی حد صرف 60 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی جو ٹریفک قوانین اور حفاظتی اقدامات کو جانتے بوجھتے نظر انداز کرنے کا واضح اشارہ ہے۔
وزیراعظم اور دیگر حکام نے مفتی عبدالشکور کی ناگہانی موت پر افسوس کا اظہار کیا، لیکن پاکستان کی سڑکوں پر لاقانونیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس میں ٹریفک قوانین اور روڈ سیفٹی کے بارے میں آگاہی میں اضافہ، ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر جرمانے کا نفاذ، اور ٹریفک کی نگرانی اور قوانین کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے بہتر انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری شامل ہے۔
یہ جاننا تشویشناک ہے کہ مفتی عبدالشکور کی گاڑی کو ٹکر مارنے والی گاڑی کے اوور اسپیڈنگ پر 13 بلا معاوضہ چالان ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر عملدرآمد اور جوابدہی کی شدید کمی ہے۔ حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے کہ ٹریفک قوانین نہ صرف لاگو ہوں بلکہ ان کا نفاذ بھی مؤثر ہو۔
مفتی عبدالشکور کو ان کی وفات کے بعد عوام کی غیر معمولی خدمات پر ہلال امتیاز سے نوازنے کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ تاہم، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ایسے ایوارڈز اور شناخت ان لوگوں کو بھی دی جانی چاہیے جو سڑک کی حفاظت کو بہتر بنانے اور ملک میں حادثات کو کم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس سے بیداری پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روڈ سیفٹی کو سنجیدگی سے لینے کی ترغیب مل سکتی ہے۔
روڈ سیفٹی صرف مقامی یا علاقائی مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان میں ایک قومی مسئلہ ہے۔ ہر سال سڑک حادثات کی وجہ سے ہزاروں جانوں کا ضیاع ایک ایسا مسئلہ ہے جو ملک کے ہر کونے کو متاثر کرتا ہے۔ مفتی عبدالشکور کی موت اس بات کی ایک المناک مثال ہے کہ کس طرح لاپرواہی سے ڈرائیونگ اور تیز رفتاری تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہے، اور یہ پاکستان میں سڑک کی حفاظت کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت کی یاد دہانی ہے۔
مفتی عبدالشکور صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ عوامی رہنما بھی تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی عوام کی خدمت کے لیے وقف کر رکھی تھی، ان کی وفات قوم کا بہت بڑا نقصان ہے۔ ان جیسے لیڈر ملک کا اثاثہ ہیں اور ان کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنا حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
قومیں اپنے اثاثوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں اور اس میں نہ صرف ان کے ادارے اور ان کے سربراہان بلکہ عوامی شخصیات بھی شامل ہیں۔مفتی عبدالشکور کا سڑک حادثے میں کسی عام شخص کی طرح انتقال کر جانا کسی بھی طرح قابلِ قبول واقعہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہمیں ایک معاشرے کے طور پر اپنے سیاسی رہنماؤن اور تمام شہریوں کو لاپرواہی سے ڈرائیونگ اور سڑکوں پر تیز رفتاری کے خطرات سے بچانے کے لیے بہتر کام کرنا چاہیے۔
مفتی عبدالشکور کو ان کی وفات کے بعد ہلال امتیاز سے نوازنے کا فیصلہ ان کی عوامی خدمات کا اعتراف ہے، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ عوام ایسے واقعات سے سبق سیکھیں اور سڑک پر من حیث القوم اپنے روئیے میں بہتری لائیں تاکہ مستقبل میں ہمارا ملک ایسے واقعات کی دست برد سے محفوظ رہ سکے۔