سو دن سے زیادہ عرصے سے جاری غزہ کے وار تھیٹر کے حوالے سے گزشتہ روز یہ اچھی خبر سامنے آئی ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف نے فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ روکنے کی اسرائیلی درخواست مسترد کرتے ہوئے کیس چلانے کی جنوبی افریقہ کی درخواست منظور کرلی۔
عالمی عدالت انصاف کا یہ عبوری اور ہنگامی حکم اگرچہ خاصا کمزور ہے، مگر پھر بھی غنیمت ہے کہ اسرائیل اور اس کی سرپرست عالمی طاقتوں کے شدید دباو کے باوجود اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرایا گیا ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنے عالمی سرپرستوں کی بھرپور مدد اور ہر طرح کی اعانت سے جو کچھ بھی کر رہا ہے، اسے نسل کشی کے اقدام پر محمول کیا جا سکتا ہے۔
ظالموں اور درندوں کے مقابلے میں انسانیت کا درد رکھنے والوں کی یہ واضح کامیابی ہے کہ عالمی عدالت نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں یکطرفہ طور پر جو کچھ کر رہا ہے، وہ پوری ایک قوم، کمیونٹی اور نسلی اکائی کی نسلی تطہیر کے ہی مترادف ہے، چنانچہ عدالت نے قرار دیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی المیے کی حد سے آگاہ ہے، اسی بنیاد پر عالمی عدالت نے نسل کشی کیس معطل کرنے کی اسرائیل کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں فیصلہ دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ اسرائیل کےخلاف نسل کشی کیس کے کافی ثبوت موجود ہیں، کچھ الزامات نسل کشی کنونشن کی دفعات میں آتے ہیں۔ عالمی عدالت کا یہ عبوری فیصلہ انسانیت پر یقین رکھنے والوں کی جیت ہے، اس فیصلے کا نتیجہ جو بھی سامنے آئے، یہ واضح ہے کہ اس نے امید کا ایک دیا روشن کر دیا ہے اور غزہ کے مظلوموں کی حمایت کے حوالے سے ہر طرف پھیلی مایوسیوں کو کسی قدر امید میں بدل دیا ہے۔
جنوبی افریقہ جیسے ایک نسبتاً غیر اہم اور کمزور ملک نے نومبر میں اسرائیل کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا تو اس مقدمے کے حوالے سے دنیا کو کچھ زیادہ خوش امیدی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے بھی عالمی عدالت انصاف کے دروازے پر دی جانے والی اس دستک پر کوئی خاص توجہ نہ دی، فلسطین کے حامیوں اور عالم اسلام میں بھی اسے محض ایک رسمی کارروائی کے طور پر دیکھا گیا، مگر جنوبی افریقہ نے اپنا مقدمہ بڑی سرگرمی، سنجیدگی اور بھرپور توجہ کے ساتھ لڑا، جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ دنیا پر واضح ہوتا گیا کہ یہ ایک سنجیدہ مقدمہ ہے اور اس کے اثرات اور مضمرات ہوں گے۔
چنانچہ جہاں ایک طرف ٹھوس کارروائی کی توقع پر غزہ میں جاری وحشت اور سفاکیت کیخلاف آواز اٹھانے والے ملکوں کی ہمت بندھی اور وہ ایک ایک کرکے عالمی عدالت انصاف میں گواہی کیلئے پہنچنا شروع ہوئے، وہاں دوسری طرف اسرائیل کو بھی اندازہ ہو ہوگیا کہ معاملہ سنجیدہ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
یہ واضح ہے کہ عالمی عدالت انصاف دلائل اور شواہد کی بنیاد پر اپنی رائے اور تبصرہ ایک فیصلے اور حکم کی صورت میں جاری کرنے تک ہی اختیار رکھتی ہے، اس کے پاس ایسی کوئی قوت نافذہ نہیں، جس کے ذریعے وہ اپنا حکم اسرائیل سے بزور منوا سکے، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ عالمی عدالت کا یہ فیصلہ بالکل بے اثر ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اسرائیل پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ کس ڈھٹائی اور ظلم و سفاکی سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، چنانچہ اس کا اتحادی امریکا بھی اب اس سے اختلاف کرنے لگا ہے، عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد اب امریکی انتظامیہ کیلئے بھی پہلے کی طرح کھل کر اسرائیل کا ساتھ دینا آسان نہیں ہوگا، جس کی طرف امریکا کے ایک سابق سینئر ڈپلومیٹ نے بھی اشارہ کیا ہے۔
اسرائیل کیخلاف نسل کشی کا مقدمہ دو اور دو چار کی طرح واضح ہے، پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل ایک ایسے شہر کو جسے وہ ایک عشرے سے مکمل طور پر اپنے محاصرے میں لیے ہوئے ہے، گزشتہ ایک سو دس دن سے زائد عرصے سے مسلسل وحشیانہ بمباری اور گولا باری کا نشانہ بنا رہا ہے، جس کے نتیجے میں غزہ مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، اسرائیل اب تک غزہ پر 68000 ٹن سے زائد بارود برسا چکا ہے جس کا حجم 3 ایٹم بموں سے زیادہ ہے، ان حملوں کے نتیجے میں اب تک تیس ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور مسلسل موت کے منہ میں جا رہے ہیں، جن میں خواتین، بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ یہ نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے؟
عالمی عدالت انصاف کے اس عبوری فیصلے نے اسرائیل کو تو بے نقاب کر ہی دیا ہے، ساتھ ہی یہ فیصلہ اور عدالت میں جاری کارروائی امن عالم کے ٹھیکیداروں امریکا اور برطانیہ کیلئے بھی قابل شرم ہے کہ وہ ایک بڑی انسانی آبادی کی نسلی تطہیر میں ایک خونی درندے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نسل کشی کے ان سنگین جرائم کا اسرائیل تنہا ذمے دار نہیں ہے، امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا میں اسرائیل کو کسی بھی طرح مدد فراہم کرنے والے سبھی نسل کشی کے اس مکروہ عمل میں برابر کے شریک اور ذمے دار ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل امریکی اور برطانوی تعاون اور مدد کے بغیر اپنا وجود تک برقرار نہیں رکھ سکتا، اس کے وجود ہی نہیں، پچھتر سال سے فلسطین کے باسیوں پر اسرائیلی مظالم اور ان کی سرزمین پر قبضوں کے پس پشت بھی امریکی تعاون کا ہی ہاتھ ہے، امریکا اپنے ہاتھ ہٹا دے، تو اسرائیل تار عنکبوت کی طرح چند دن میں بکھر جائے گا۔ عالمی عدالت کا عبوری فیصلہ اپنی جگہ اہم ہے مگر فوری جنگ بندی ضروری ہے، اس کے بغیر فلسطینیوں کو مکمل انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا۔