حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جب دنیا کی نظر اسرائیل پر ہوتی ہے تو زیادہ تر نگاہیں فلسطین کے خلاف اس کے مظالم، غزہ کی جنگ یا صہیونی فوجی جارحیت پر مرکوز ہوتی ہیں لیکن اسرائیل کو اندر سے جو خطرہ لاحق ہے، وہ کسی راکٹ، کسی مزاحمتی تنظیم یا بیرونی دشمن سے نہیں، بلکہ اسی کے اندر پلنے والی ایک متوازی یہودی قوم سے ہے اور وہ ہے حریدیم۔
حریدیم کون ہیں؟
حریدیم (الٹرا آرتھوڈوکس یہودی) وہ انتہا پسند مذہبی یہودی طبقہ ہے جو اسرائیل کے قیام ہی سے اس کی فکری اور مذہبی بنیادوں سے اختلاف رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک یہودیوں کی ریاست کا قیام “آسمانی حکم” سے پہلے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ دینی مدارس (یشیوات) میں دن رات تورات کی تعلیم کو اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھتے ہیں اور فوجی خدمت، قومی پرچم، اور ریاستی قوانین کو اہمیت نہیں دیتے۔
موجودہ بحران:
اس وقت اسرائیل کو جس سب سے بڑے اندرونی بحران کا سامنا ہے، وہ حریدیم کا فوجی بھرتی سے انکار ہے۔ اسرائیل کی عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ حریدیم کو فوجی خدمت سے مستثنیٰ رکھنا قانوناً ناجائز ہے۔ لیکن حریدی جماعتیں، جن کے پاس پارلیمان (کنیسٹ) میں اٹھارہ نشستیں ہیں، واضح کر چکی ہیں کہ وہ کبھی بھی اپنے نوجوانوں کو فوج میں نہیں بھیجیں گی۔ یہ ایک ایسا تصادم ہے جو صرف قانون کا نہیں، نظریے اور ایمان کا ٹکراؤ ہے۔
انکار، حقارت، اور بغاوت:
حریدیم صرف فوج میں جانے سے انکار نہیں کرتے، وہ سیکولر اسرائیلی یہودیوں کو “کافر” سمجھتے ہیں۔ ان کے وزراء یہاں تک کہتے ہیں: “ہم مر جائیں گے، مگر فوج میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہم گوشتِ خنزیر کھا لیں گے، مگر سیکولر معاشرے میں گھل مل کر اپنے ایمان کو خراب نہیں کریں گے۔”
یہ زبان محض اختلاف نہیں بلکہ نظریاتی بغاوت ہے۔ یہ ایک ایسا باغی طبقہ ہے جو ریاست کی قانونی، عسکری، اور تہذیبی اساس کو تسلیم نہیں کرتا، جو ہر وقت یہ باور کراتا ہے کہ “ہم ریاست پر بوجھ نہیں، بلکہ ہماری تورات کی تعلیم ہی ریاست کی بقا کی ضامن ہے!”
کیا اسرائیل کے زوال کا آغاز ہوچکا ہے؟
اس وقت اسرائیلی حکومت ایک بہت نازک اکثریت (64میں سے صرف4نشستوں کی برتری) پر قائم ہے، جس میں حریدی جماعتیں کلیدی ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر ان جماعتوں نے فوجی بھرتی کے مسئلے پر حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تو نہ صرف حکومت گرے گی بلکہ پورے ریاستی نظام پر سوالات اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یاد رکھیں، جب کوئی گروہ ریاست کے قوانین کو نہ مانے، اس کے اداروں کو “کافر” سمجھے، اس کے دفاعی نظام میں شامل ہونے سے انکار کرے اور اس کے شہری تشخص کو رد کرے… تو وہ ریاست کے اندر رہتے ہوئے، ریاست کے خاتمے کی بنیاد رکھ رہا ہوتا ہے۔
داخلی تباہی، خارجی حملے نہیں:
آج اسرائیل اپنی ظاہری قوت کے باوجود ایک اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ صہیونی منصوبہ جس پر پورا اسرائیل کھڑا ہے، وہ آہستہ آہستہ خود یہودیوں کے ہاتھوں ہی سوالیہ نشان بن رہا ہے۔ یہ عجیب منظر ہے، جہاں ایک طرف حماس اور مزاحمت باہر سے حملہ آور ہے، وہیں اندر سے حریدیم کی بغاوت اسرائیل کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ہے۔ حریدیم اسرائیل کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن یہ جنگ ٹینکوں یا راکٹوں سے نہیں، نظریات اور شناخت کی جنگ ہے۔ اگر اسرائیل اپنے ہی لوگوں کو فوجی خدمت پر مجبور کرے گا، تو ہو سکتا ہے کہ حریدیم ملک چھوڑ دیں، یا سڑکوں پر بغاوت کریں یا ریاست کے وجود کو مسترد کر دیں۔ ان تمام صورتوں میں اسرائیل کو وہ زخم ملے گا جو کسی دشمن فوج سے نہیں، اپنے ہی ہم مذہبوں کے ہاتھوں لگے گا۔ یہ وہی زوال ہے جس کی تاریخی مثالیں روم، سوویت یونین اور دیگر سلطنتوں میں دیکھی جا چکی ہیں۔ آج اسرائیل کا سب سے بڑا خطرہ نہ ایران ہے، نہ حزب اللہ، نہ حماس، بلکہ “یروشلم کے مدارس” ہیں، جہاں سے اس ریاست کی فکری قبر کھودی جا رہی ہے۔ اگرچہ نیتن یاہو کی حکومت دنیا کے سامنے خود کو ایک متحد اور مستحکم حکومت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے، مگر حالات پر گہری نظر رکھنے والوں پر یہ بات مخفی نہیں کہ یہ حکومت اندرونی طور پر کس قدر کمزور اور غیر مستحکم ہے، یہاں تک کہ اس کا اب تک قائم رہنا بھی ایک غیر معمولی امر محسوس ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت کے خاتمے کا سب سے بڑا سبب غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کا اختتام ہوگا، کیونکہ اس صورت میں انتہا پسند وزراء، جیسے بتسلئیل سموتریچ اور ایتمار بن گویر، حکومت سے علیحدگی اختیار کر لیں گے یا کم ازکم اس کی مخالفت شروع کر دیں گے، جو حکومت کے انہدام کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن اگر اس حکومت کے اندرونی ڈھانچے پر وسیع تر نگاہ ڈالی جائے، تو ایک اور خطرناک عنصر نظر آتا ہے، ایسا عنصر جو نہ صرف حکومت کے اتحاد کو توڑ سکتا ہے، بلکہ اسرائیلی معاشرے میں موجود نازک توازن کو بھی بکھیر سکتا ہے اور وہ عنصر ہے:” حریدی جماعتیں”۔
حریدی یہودی دراصل روایتی مذہبی طبقہ ہیں جو اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست کا وجود صرف اسی صورت میں جائز ہے جب وہ تورات کے احکام کی مکمل پابندی کرے۔ یہ طبقہ اسرائیلی معاشرے میں کوئی معمولی اقلیت نہیں، بلکہ ان کی آبادی اسرائیل کی کل آبادی (جس میں دروز اور عرب فلسطینی بھی شامل ہیں) کا13فیصد سے زائد ہے۔ اگر صرف یہودی آبادی (تقریباً70لاکھ افراد) کو دیکھا جائے، تو ان میں حریدیوں کی شرح17فیصد بنتی ہے۔ جبکہ1948ءمیں فلسطینی نَکبہ اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت یہ شرح صرف2.6فیصد تھی۔ اسرائیل کے ادارۂ شماریات کے مطابق، اگر موجودہ شرح برقرار رہی تو2059ءتک یہ 35فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ یہی گروہ مستقبل میں اسرائیل کی داخلی سیاست میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے، خصوصاً جب بات حکومتی اتحادوں اور ریاست کے مذہبی یا سیکولر خدوخال کی ہو۔ یہ بلند شرحِ آبادی اس وقت کنیسٹ میں ان کے نمائندگی کے تناسب سے مطابقت رکھتی ہے، جہاں120میں سے18نشستیں ان کے پاس ہیں، یعنی تقریباً15فیصد۔ ان میں سرفہرست “شاس” پارٹی ہے، جس کے پاس11نشستیں ہیں، اس کے بعد “یہدوت ہتوراہ” پارٹی ہے، جس کے7ارکان کنیسٹ میں موجود ہیں۔ ایک سادہ سے حساب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت نہایت نازک اکثریت پر قائم ہے، کیونکہ اس کے اتحاد کے پاس صرف64نشستیں ہیں، جو کل نشستوں کا تھوڑا سا زیادہ (صرف چار نشستوں کی اکثریت) ہے۔ ان میں32نشستیں خود نیتن یاہو کی “لیکود” پارٹی کی ہیں،14نشستیں “صہیونیتِ مذہبی” اتحاد کی ہیں، جو سموتریچ اور بن گویر کی قیادت میں کام کر رہا ہے، جب کہ باقی نشستیں حریدی جماعتوں کے پاس ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ حکومت کے خلاف سب سے زیادہ آوازیں “صہیونی مذہبی” کیمپ سے آتی ہیں، جو زیادہ تر غزہ میں جنگ جاری رکھنے اور انسانی امداد کے داخلے کو روکنے پر زور دیتا ہے۔ اس کے برعکس، حریدی جماعتوں کا مرکزی مطالبہ ایک بالکل الگ نوعیت کا ہے اور وہ ہے:”حریدیوں کی جبری فوجی بھرتی کا معاملہ”۔ یہ مسئلہ اسرائیلی ریاست میں کئی دہائیوں سے ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کی جڑیں اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کے اُس فیصلے سے جڑی ہیں، جب اس نے حریدی طبقے کے400تارکینِ وطن کو لازمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ قرار دیا۔ اس کے پیچھے کئی اسباب تھے۔ ایک یہ کہ اُس وقت حریدیوں کی آبادی بہت کم تھی۔ دوسرا یہ کہ بن گوریون مذہبی طبقے کی حمایت حاصل کرنا چاہتا تھا، کیونکہ اُس وقت بہت سے روایتی مذہبی حلقے یہودی ریاست کے قیام کے نظریئے کے حق میں نہیں تھے۔ چنانچہ انہیں خوش کرنے کے لیے یہ وعدہ کیا گیا کہ نئی اسرائیلی ریاست یہودی مذہبی روایات کا احترام کرے گی۔ یہی وعدے آج اسرائیلی ریاست کی پالیسیوں میں تضاد کا باعث بن چکے ہیں، خاص طور پر جب سیکولر اور صہیونی مذہبی دھڑے یہ چاہتے ہیں کہ تمام شہری بشمول حریدی یہودی، فوجی خدمت انجام دیں۔ دوسری طرف حریدی جماعتیں اسے اپنے عقیدے اور طرزِ حیات کے خلاف تصور کرتی ہیں اور اس کی شدید مخالفت کرتی ہیں۔ اگر حکومت نے اس معاملے پر حریدی جماعتوں کو ناراض کیا، تو ممکن ہے کہ وہ خاموشی سے اتحاد سے الگ ہو جائیں اور یہی عمل نیتن یاہو کی حکومت کے زوال کا سبب بن سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے وزیراعظم بن گوریون اور بعد کے حکمرانوں کی خواہش تھی کہ اسرائیل کی تصویر دنیا کے سامنے ایک “یہودی ریاست” کے طور پر پیش کی جائے، تاکہ دنیا بھر کے مختلف یہودی طبقات کو اسرائیل ہجرت پر آمادہ کیا جا سکے۔ حریدی طبقے کا اسرائیلی فوج میں بھرتی سے استثنیٰ پر اصرار ایک اصولی مؤقف پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک فوجی خدمت ان کے عقائد سے متصادم ہے۔ حریدی عقیدہ ہے کہ دنیوی ذمہ داری صرف تورات کا پڑھنا، اس کی تعلیم دینا اور اس کی تشریح کرنا ہے۔ وہ اس عمل کو اس قدر مقدس سمجھتے ہیں کہ ان کا ایمان ہے: یہی عمل زمین پر زندگی کے تسلسل کا سبب ہے۔ ان کے نزدیک تورات کا مطالعہ ایک الٰہی مشن ہے جو پوری دنیا کی بقا اور تباہی سے حفاظت کے لیے لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حریدی یہودی نہ صرف اسرائیلی ریاست کے احسان مند نہیں، بلکہ وہ خود کو ریاست کے لیے باعثِ خیر سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ ریاستِ اسرائیل کی بقا اور اس کی فوجی فتوحات دراصل ان کی دعاؤں اور تورات کے مطالعے کی برکت سے ممکن ہوئی ہیں، خصوصاً موجودہ جنگ جیسے نازک مواقع پر۔ اس کی ایک مثال اسرائیل میں سفاردی یہودیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا (حاخام) یتسحاق یوسف کا مشہور بیان ہے، جس میں اس نے کہا: “اگر مدارسِ دینیہ نہ ہوتے تو فوج کو کبھی کامیابی نہ ملتی۔ دراصل فوجی اس لیے کامیاب ہوئے کہ اہلِ تورات نے ان کے لیے دعائیں کیں اور تورات کی تعلیمات کو جاری رکھا۔” یہ وہی حاخام ہے جس نے یہاں تک کہا کہ اگر حریدی طبقے پر لازمی فوجی خدمت مسلط کی گئی تو وہ اپنے تمام پیروکاروں کے ساتھ اسرائیل چھوڑ دیں گے اور کبھی واپس نہیں آئیں گے۔” اس طبقے نے سیاسی طور پر سب سے زیادہ فائدہ “لیکود” پارٹی کے اقتدار میں آنے سے اٹھایا۔ لیکود ہمیشہ سے ان کی سیاسی اتحادی رہی ہے اور انہیں خوش رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے تاکہ انتخابی کامیابیوں اور حکومت سازی میں ان کا تعاون حاصل ہو۔ لیکود کے لیے حریدی جماعتیں کبھی مسئلہ نہیں بنیں، کیونکہ ان کے مطالبات ہمیشہ محدود اور واضح رہے ہیں: مثلاً دینی مدارس کے لیے بجٹ برقرار رکھا جائے اور فوجی خدمت سے ان کا استثنیٰ برقرار رکھا جائے۔ یہی وہ بنیادی مطالبات ہیں جن پر حریدی جماعتیں کسی بھی حکومت سے سمجھوتہ نہیں کرتیں اور اگر ان پر دباؤ ڈالا جائے تو وہ خاموشی سے حکومت کو گرا دینے کی طاقت رکھتی ہیں، چاہے وہ اس طاقت کا مظاہرہ نہ کریں۔ حریدی یہودی سمجھتے ہیں کہ فوج میں شامل ہونا نہ صرف ان کے عقائد سے متصادم ہے، بلکہ یہ ان کے مذہبی ایمان کے لیے ایک براہِ راست خطرہ بھی ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیلی سیکولر شہری دراصل صرف عبرانی زبان بولنے والے کفار ہیں، جنہیں وہ حقیر اور ناپاک سمجھتے ہیں۔ اس نفرت کا اظہار کئی مواقع پر کھل کر سامنے آ چکا ہے، جن میں ایک نمایاں مثال وزیرِ تعمیرات یتسحاق گولڈکنوف کا رویہ ہے، جو نیتن یاہو کی حکومت میں “یہدوت ہتوراہ” پارٹی کی طرف سے وزیر ہے۔ سالِ گزشتہ، گولڈکنوف کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ اپنے حامیوں کے ساتھ رقص کرتے ہوئے یہ نعرے لگا رہا تھا: “ہم مر جائیں گے مگر فوج میں شامل نہیں ہوں گے اور کافروں کی حکمرانی کبھی قبول نہیں کریں گے!” یہاں “کافروں” سے مراد اسرائیلی سیکولر طبقہ تھا۔ 2015 ء میں اسرائیلی دائیں بازو نے کنیسٹ میں ایک قانون منظور کروایا تھا جس کے تحت حریدی یہودیوں کو فوجی بھرتی سے مکمل طور پر مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ لیکن اسرائیل کی سپریم کورٹ نے اس قانون کو “برابری کے اصول” کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا اور یہ ہدایت دی کہ ایسا کوئی قانون بنایا جائے جو حریدی یہودیوں کو فوجی خدمت سے استثنا نہ دے۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے اس مسئلے نے شدت اختیار کی، خاص طور پر موجودہ جنگ کے پس منظر میں، جب اسرائیلی فوج بری طرح تھکن اور جانی نقصان کا شکار ہے اور افرادی قلت کی وجہ سے ریزرور فورس کو بار بار طلب کرنا پڑ رہا ہے۔ اس بحران کا حل نہ نکلنے کے باعث سیکولر اور قوم پرست دھڑوں کی آوازیں دن بدن بلند ہو رہی ہیں، جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حریدی طبقے کو بھی دیگر شہریوں کی طرح لازمی فوجی سروس کا پابند بنایا جائے، جیسا کہ عدالت کا فیصلہ تھا۔ مگر چونکہ یہ مطالبات زیادہ تر سیکولر دائیں اور بائیں بازو کی طرف سے آ رہے ہیں، تو حریدی جماعتوں نے اس صورتِ حال کو ایک نئے رخ سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ معاملہ اب صرف سیاسی یا قومی نہیں بلکہ اہلِ تورات اور کافروں کے درمیان ایک مذہبی جنگ بن چکا ہے، وہ کہتے ہیں: “یہ روشنی اور تاریکی کے درمیان جنگ ہے”۔ اسی لیے ان کے ہاں شدید غصہ اور نفرت پائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق ان سے فوجی خدمت کا مطالبہ دراصل یہ ہے کہ وہ تورات کا مطالعہ چھوڑ دیں، سیکولر افراد کے ساتھ اختلاط کریں اور بالآخر اپنی مذہبی شناخت اور شریعت کو فراموش کر بیٹھیں۔ یہی وجہ ہے کہ حریدی یہودی اس مطالبے کو اپنی بقا کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور اگر ریاست نے اس پر زور دیا تو یہ حکومت کے لیے ایک اندرونی دھماکے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسرائیل کے اندر اب ایک نیا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، ایک ایسا بحران جو محض سیاسی نہیں بلکہ معاشرتی اور فکری سطح پر بھی دراڑیں ڈال رہا ہے۔ ایک طرف حریدی مذہبی طبقہ ہے، جو خود کو تورات کا محافظ اور اسرائیلی ریاست کا روحانی سہارا سمجھتا ہے اور دوسری طرف سیکولر اسرائیلی ہیں، چاہے وہ بائیں بازو کے ہوں یا قوم پرست دائیں بازو سے، جو حریدیوں کو معاشرے پر بوجھ تصور کرتے ہیں۔ سیکولر طبقے کے ہاں اب یہ آواز زور پکڑ چکی ہے کہ: “جب ہمارے نوجوان اپنی جانیں دے رہے ہیں، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بڑا مذہبی طبقہ نہ صرف دفاع میں شریک نہ ہو، بلکہ ریاست کو حقیر سمجھے؟” یہ فکری تصادم اب محض سیاسی ایوانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ سڑکوں تک پھیل چکا ہے، جہاں دن بدن معاشرتی دراڑیں واضح ہوتی جا رہی ہیں۔ اگرچہ دونوں طبقات ایک ہی ملک کے شہری ہیں، مگر ان کے خیالات، طرزِ زندگی، حتیٰ کہ زبان تک میں فرق اور بعد ہے اور سچ یہ ہے کہ اس خلیج کو وسیع تر بنانے میں حریدی رہنماؤں کی سخت اور توہین آمیز زبان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر، ان کے رہنما بعض اوقات یہ کہتے ہیں: “عربوں کے ہاتھوں مر جانا، فوج میں جانے سے بہتر ہے۔ خنزیر کا گوشت کھا لینا، سیکولر معاشرے میں رہنے سے بہتر ہے۔ ہمارے اور سیکولر یہودیوں کے درمیان کوئی مشترکہ تہذیب یا ثقافت نہیں۔” ایسی نفرت انگیز زبان اسرائیلی میڈیا میں وقتاً فوقتاً نشر ہوتی رہتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں طبقات کے درمیان کسی بھی قسم کی فکری یا سماجی ہم آہنگی کا امکان تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت یہ بحران حکومت اور کنیسٹ کی حدود سے نکل کر اسرائیلی گلی کوچوں تک پہنچ چکا ہے اور اندازہ ہے کہ یہ تقسیم مزید گہری ہوگی۔ نتیجہ یہ ہے کہ حریدی بحران کا حل فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔ دونوں طرف ایک دوسرے کے خلاف استعلائی رویہ رکھتے ہیں: حریدی طبقہ خود کو “الٰہی مشن” پر فائز سمجھتا ہے۔ جبکہ سیکولر طبقہ انہیں “مفت خور اور متعصب” قرار دیتا ہے۔ ادھر اسرائیلی فوج کو مزید اہلکاروں کی اشد ضرورت ہے، مگر وہ حریدی طبقے کی مزاحمت سے بندھی ہوئی ہے۔ نیتن یاہو کے لیے یہ صورت حال ایک دہری تلوار ہے۔ اگر وہ حریدی جماعتوں کے مطالبے پر انہیں فوج سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے، تو عدلیہ مخالفت کرے گی اور اگر وہ عدالت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، تو اس کی حکومت گر سکتی ہے کیونکہ شاس اور یہدوت ہتوراہ کی حمایت ختم ہو جائے گی۔ اس وقت70فیصد اسرائیلی عوام حریدی طبقے کو دی جانے والی اس رعایت کے خلاف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ بحران ایک پھٹنے والے آتش فشاں کی مانند ہے، جو نہ صرف حکومت کو بلکہ اسرائیلی معاشرتی ہم آہنگی کو بھی نگل سکتا ہے۔
یہاں اصل سوال یہ ہے کہ حریدی بحران آخر کس حد تک جا سکتا ہے؟ اکثر تجزیہ نگار اس سوال کا جواب صرف نتن یاہو حکومت کے ممکنہ خاتمے تک محدود رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر حریدی جماعتیں حکومت سے الگ ہو گئیں تو اقتدار کا توازن بگڑ جائے گا اور یوں حکومت گر سکتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک حکومت کی تبدیلی کا معاملہ نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی گہرائیوں میں سرایت کرنے والا ایک وجودی بحران بن چکا ہے۔
اسرائیلی معاشرہ پہلے کبھی اتنا منقسم نہ تھا:
اس وقت اسرائیلی معاشرے میں جو تقسیم نظر آ رہی ہے، وہ محض سیاسی نہیں بلکہ سماجی، تہذیبی اور فکری ہے۔ فوج میں خدمات انجام دینے والے عام سیکولر اسرائیلی نوجوان جب دیکھتے ہیں کہ حریدی طلبہ فوج سے مکمل طور پر آزاد ہیں اور صرف تورات کی تعلیم میں مشغول رہتے ہیں، تو وہ شدید غصے اور حقارت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “ہم اپنی جانیں قربان کریں اور یہ صرف کتابیں پڑھ کر ریاست پر احسان کریں؟” اس کے برعکس حریدی طبقہ پورے اسرائیلی معاشرے کو گمراہ سمجھتا ہے اور ان کے بیانات میں کھلم کھلا اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ80فیصد سے زیادہ یہودی اسرائیلی، جو حریدی نہیں ہیں، ایک گمراہ قوم ہیں۔
خونی تصادم کا خدشہ:
یہ باہمی نفرت صرف بیانات تک محدود نہیں رہے گی۔ اگر یہی روش جاری رہی، تو یہ کشمکش کسی بھی وقت خونی تصادم اور سڑکوں پر پرتشدد جھڑپوں کی صورت اختیار کر سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا، تو یہ بحران صرف حکومت کے خاتمے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پوری ریاستی ساخت کو ہلا کر رکھ دے گا۔
صہیونی منصوبے سے انحراف:
سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ جب حریدی قیادت اسرائیل کی شہریّت سے دستبرداری کی دھمکی دیتی ہے، جیسے سفاردیم کے روحانی پیشوا کا کہنا کہ “اگر ہمیں فوج میں زبردستی شامل کیا گیا تو ہم یہ ملک چھوڑ دیں گے” تو وہ محض ایک پالیسی سے اختلاف نہیں کر رہا، بلکہ خود صہیونی منصوبے سے علیحدگی کا اعلان کر رہا ہے۔ یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ حریدی طبقہ ریاست اسرائیل کو اپنا ملک نہیں مانتا۔ وہ اس کے نظریاتی ڈھانچے پر یقین نہیں رکھتے اور اس کے وجود کو محض وقتی ضرورت یا “آسمانی آزمائش” سمجھتے ہیں، نہ کہ کسی الوہی وعدے کی تکمیل۔
داخلی تزلزل کی شروعات:
یہ وہی بات ہے جس سے اسرائیلی دانشور اور اسٹیبلشمنٹ سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں: “ریاست کا بظاہر طاقتور ڈھانچہ اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔” حریدی طبقہ دراصل اس ریاست کے اندر ایک “ریاست مخالف قوم” کی صورت میں پروان چڑھ رہا ہے، جو بظاہر شہری ہے، مگر فکری طور پر ریاست کو رد کرتا ہے۔ یہ بحران ایک ایسی داخلی خودکشی کی شروعات ہے، جس میں نہ صرف سیاسی اتحاد ٹوٹے گا بلکہ معاشرتی اور نظریاتی شیرازہ بکھرنے کا خطرہ بھی بہت بڑھ چکا ہے۔ اگر حریدی بحران مزید بڑھا، تو سڑکوں پر تصادم ہوگا، عدالت اور حکومت میں محاذ آرائیاں ہوں گی اور شاید اسرائیل ایک قوم کے بجائے مختلف متصادم گروہوں کی ریاست میں بدل جائے۔ یہ وہ منظر ہے جس کا سب سے زیادہ خدشہ خود اسرائیلی تجزیہ نگاروں کو ہے، ایک ایسا منظر جو خارجی دشمنوں سے زیادہ ریاست کو اندر سے توڑ سکتا ہے۔

Related Posts