ہمارے دور کا بڑا المیہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وقت کا کام گزرنا ہے، آفتوں اور مصیبتوں کا تباہ کرنا اور قوموں کا تمام تر مصائب اور مشکل سے مشکل ترین حالات سے بھی مستقل مزاجی، صبر و تحمل اور جہدِ مسلسل کے ساتھ گزر جانا، لیکن کیا کسی نے کبھی غور کیا کہ ہمارے دور کا سب سے بڑا المیہ کیا ہے؟

کچھ لوگ کہیں گے کہ حالیہ سیلاب ہمارے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے، کچھ کبھی ختم نہ ہونے والی غربت کا رونا روئیں گے۔ کچھ کہیں گے کہ 2005 کا زلزلہ بہت بڑی آفت تھی، کچھ شاید 2010 کے سیلاب یا 2014 کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کی بھی بات کریں۔

یہاں ایک لمحے کو ٹھہر کر غور کیجئے تو سیلاب، زلزلہ یا دہشت گردوں کے حملے جو گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل ہوتے چلے آرہے ہیں، المیہ نہیں بلکہ وہ آفتیں اور مصیبتیں ہیں جن کا ہمیں من حیث القوم سامنا کرنا تھا اور مصیبت چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، زندہ قوم وہی ہوتی ہے جو اسے جھیلے، اس کا سامنا اور مقابلہ کرے، جیتے اور آگے بڑھ جائے۔

اگر پاکستانی قوم کے گزشتہ 75 سالہ دور کا جائزہ لیجئے تو ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ پاکستانیوں کو تعلیم سے محروم کردیا گیا۔ اسکولز اور کالجز وڈیروں کی اوطاقوں یا پھر ناجائز قبضہ کرنے والوں کی دیگر من پسند عمارات میں تبدیل ہوگئے اور اگر علم ملا بھی تو ادھورا اور ناقص۔

کیا اسے آپ تعلیم کہیں گے کہ ایک شخص زندگی کے 16 یا 20 سال دے کر گریجویشن یا ایم اے کرتا ہے اور جب زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک بند گلی اس کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ جس روزگار کیلئے سالہا سال تک کتابیں پڑھیں، استاد کی مار سہی اور امتحانات دئیے، وہ آپ کے مقدر میں ہی نہیں تھا۔

بلاشبہ تعلیم کا مقصد صرف روزگار ہی نہیں ہوتا لیکن جو تعلیم انسان کو روزگار جیسی ضرورت ہی پوری کرنے کے قابل نہ بنا سکے، وہ ذہنی افکار اور دینی فکر کی نشوونما کی متحمل کیسے ہوسکتی ہے؟ اگر ہمارے تمام تر مسائل کی جڑ مسلسل بڑھتی جہالت اور علم سے دوری کو قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

آج بھی پاکستان میں شرحِ خواندگی کی بات کیجئے، ملک میں موجود جامعات اور کالجز کے نصاب کو دیکھئے یا اساتذہ کی علمی قابلیت ہی کا جائزہ لے لیجئے تو ہر میدان میں ہم دنیا کے دیگر ممالک بلکہ اپنے ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں بھی کہیں پیچھے کھڑے نظر آئیں گے۔

ایسا اس لیے ہے کیونکہ جن سیاستدانوں کو ہم ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں، وہی نظامِ تعلیم کو پنپنے سے گزشتہ 75 برس سے مسلسل روک رہے ہیں۔ انہوں نے تعلیم کو وہ مقام کبھی نہیں دیا جو دینا چاہئے تھا اور اس قوم کو وہ ترقی کبھی کرنے ہی نہیں دی جس کی یہ حقدار تھی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں، شہروں، دیہاتوں اور گلی محلے کی سطح پر ہر پڑھا لکھا شخص اپنے پڑوسیوں اور دوست احباب کو پڑھنے لکھنے سمیت زندگی کیلئے ضروری تمام تر تکنیک سکھانے کا ذمہ لے لے اور جس حد تک اس سے ممکن ہوسکتا ہے، دوسروں کو تعلیم دے۔

شاید یہی وہ ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل کسی نہ کسی حد تک سدھار سکتے ہیں۔ 

Related Posts