(دوسرا اور آخری حصہ)
ڈاکٹر السمیط کہتے ہیں کہ گردشِ ایام کا سلسلہ کب رکتا ہے؟ چنانچہ مہ و سال گزرتے گئے اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس بچے کو دیکھ کر اسے مردہ ہی سمجھ لیا تھا، باقی پیسے تو صرف اُس کی ماں کی تسلی کے لیے جاری کیے تھے، تاکہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہے۔
ڈاکٹر السمیط کہتے ہیں وقت گزرتا گیا اور میں یہ معاملہ ہی بھول گیا۔ تقریباً 12 سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد ایک دن میں مقامی مرکز میں بیٹھا تھا۔ ایک ملازم آیا اور کہا کہ ایک افریقی عورت آپ سے ملنے پر مصر ہے۔ اُسے ٹالنے کے بعد بھی بار بار آتی ہے۔ میں نے کہا اندر بھیج دو! کچھ دیر بعد ایک عورت داخل ہوئی، جسے میں پہچانتا نہ تھا اور اس کے ساتھ ایک خوبصورت اور مطمئن چہرے والا بچہ تھا۔ وہ کہنے لگی کہ یہ میرا بیٹا عبد الرحمن ہے، یہ پورا قرآن کریم حفظ کر چکا ہے اور بہت سی احادیث رسولؐ بھی یاد کر چکا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ آپ کے ساتھ (رہ کر) داعی بن جائے!
میں اُس کے اصرار پر حیران ہوا اور کہا: تم اپنی اس درخواست پر مجھ سے اصرار کیوں کر رہی ہو؟ میں کچھ سمجھ نہیں رہا تھا۔ میں نے بچے کو دیکھا تو وہ بڑی روانی سے عربی بول رہا تھا۔ وہ مجھے کہنے لگا: ’’اگر اسلام اور اس کی رحمتیں نہ ہوتیں تو میں آج زندہ نہ ہوتا اور آپ کے سامنے کھڑا نہ ہوتا۔ میری ماں نے آپ کے ساتھ بیتا قصہ مجھے سنا رکھا ہے اور میری صغر سنی میں آپ نے جو مجھ پر خرچ کیا (وہ بھی بتا رکھا ہے) میں آپ کی سرپرستی میں رہنا چاہتا ہوں۔ میں افریقی زبان پوری جانتا ہوں اور آپ کی نگرانی میں اسلام کے داعی کے طور پر کام کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے کھانے کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے ہوگا اور مجھے اچھا لگے گا اگر آپ میری قرآن کی تلاوت بھی سن لیں۔‘‘
اس کے بعد بچے نے بہت ہی سریلی آواز میں سورۃ البقرۃ کی آیات پڑھنا شروع کیں اور اس کی خوبصورت آنکھیں مجھے امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ اب مجھے یاد آیا تو میں نے کہا: کیا یہ وہی بچہ ہے، جس کی دیکھ بھال سے ڈاکٹر نے منع کر دیا تھا؟ اور مردہ قرار دیا تھا؟ ماں نے کہا: ہاں ہاں! یہ وہی بچہ ہے۔ پھر کہنے لگی: میں اسی لیے اسے آپ کے پاس لانے پر مصر تھی اور میں نے اس کا نام بھی آپ کے نام پر عبد الرحمن رکھا ہے۔
ڈاکٹر السمیط کہتے ہیں: میرے قدم مجھے اُٹھا نہیں رہے تھے۔ میں زمین پر آ رہا تھا۔ میں خوشی اور حیرت سے مفلوج آدمی جیسا ہو چکا تھا۔ میں نے رب کے حضور سجدہ شکر ادا کیا۔ میں روتے ہوئے کہہ رہا تھا: سوفٹ ڈرنک جتنا خرچ ایک جان بچا سکتا ہے (اور اس سے بڑھ کر) ہمیں ایک داعی عطا کر سکتا ہے، جس کی ہمیں سخت ضرورت ہے۔ (اور بعد میں) یہی بچہ افریقی قبائل میں سب سے مشہور داعی بنا اور اسے لوگوں میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اب بھی وہ دعوت دین کا کام کر رہا ہے۔ کتنے ہی چھوٹے صدقے ایسے ہوتے ہیں جو اتنے سارے لوگوں کی زندگیاں بدل دیتے ہیں، انہیں سعادت مند بنا دیتے ہیں اور کتنا ہی مال ہم بغیر کسی مقصد اور ہدف کے خرچ کر دیتے ہیں کہ ہمارے اور امت کے لیے وبال بن جاتا ہے۔
شیخ السمیط پر امریکی ایجنسیوں اور یہودی لابیوں نے دہشت گردی کا الزام بھی عائد کیا، ان پر افریقہ میں ٹینک بنانے کی فیکٹری قائم کرنے کے الزامات لگائے اور خفیہ ایجنسیوں نے ان کا پیچھا کیا، جبکہ ان پر متعدد بار قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا، انہیں جیل بھی جانا پڑا، لیکن ہر خوف و اندیشے سے بے پروا اس مردِ مجاہد نے اپنا کام بند نہیں کیا، اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی دینی مصلحتوں کے نام پر اسلام کی خدمت سے پیچھے ہٹنا گوارا کیا۔ شیخ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر مسلمان تاجر صحیح طریقہ سے اپنی زکوٰۃ دیں اور حقیقی مستحقین میں اس کی تقسیم کو یقینی بنائیں تو مسلمانوں کی غربت ختم ہو جائے گی اور مسلمان فقیر رہے گا نہ کسی مسلمان کو کوئی عیسائی مشینری اس کی غربت کو استعمال کرکے کافر بنا سکے گی۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا: ”عرب تاجروں کا سرمایہ 275 ارب ڈالر ہے، جس کی اگر صحیح زکوٰۃ نکالی جائے تو یہ 250 ملین مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیےکافی ہے، یہ صرف عرب تاجروں کی بابت ہے، جبکہ دنیا بھر کے مسلمان تاجروں کا سرمایہ اس کے علاوہ ہے۔“
شیخ عبد الرحمن مرحوم نے اپنی زوجہ محترمہ ام صہیب کے ساتھ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور رفاہی کام کا آغاز کیا۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ امت کی مائیں اور بہنیں ذرا غور کریں کہ ایک خاتون نے شیخ عبد الرحمن کو پر تعیش زندگی کو ترک کرنے پر آمادہ کیا اور افریقہ کے صحراوں، چٹیل میدانوں اور جنگلوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور و آمادہ کیا اور یہی نہیں، بلکہ خود ان کے شانہ بشانہ ان کے عمل میں معاون ومدرگار رہیں۔ یقیناً معاشرے کی تبدیلی اور اس کی اصلاح میں خواتین کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ شیخ نے افریقہ کے صحرا میں اپنی زندگی کے 29 برس گزارے اور اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر 5700 مساجد تعمیر کیں۔ 9500 کنویں کھدوائے۔ 95 ہزار بے سہارا یتیموں کی تعلیمی اور معاشی کفالت کی اور ان میں سے 200 کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپی یونیورسٹیوں میں بھیجا، 860 اسپتال و ڈسپنسریاں اور 4 بڑی یونیورسٹیاں قائم کیں۔ کینیا کی مشہور یونیورسٹی جامعۃ الامۃ انہوں نے ہی بنائی، نو مسلموں میں 60 لاکھ اور عام افراد میں ایک کروڑ 51 لاکھ قرآنی نسخے تقسیم کیے، افریقہ کے 40 ممالک میں 10 لاکھ سے زائد روزہ داروں کے لیے ہر سال افطاری کا انتظام فرمایا، 3288 معلمین کی ماہانہ تنخواہ ان کے ذمے تھی، ایک لاکھ 60 ہزار ٹن غذائی اشیاء تقسیم کیں، 60 لاکھ 5 ہزار اسلامی کتابیں چھاپ کر تقسیم کیں۔
شیخ نے ابتدا میں انفرادی طور پر اپنے ذاتی مال سے کام شروع کیا اور اپنی تمام دولت اور کمائی کو اسی مقصد کےلیےوقف کردیا۔ صدقات وزکوٰۃ کو مستحقین میں تقسیم کرنے کے صاف وشفاف نظام کے لیےانہوں نے ”افریقن مسلم کمیٹی“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا، جس کا نام بعد میں ”ڈائرکٹ ایڈ“ میں تبدیل کر دیا۔ اپنی ادارت میں ”الکوثر“ میگزین کا اجرا کیا۔ اتنی بڑی خدمات کے باوجود قلم و قرطاس سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف فرمائیں، جن میں لبیک افریقہ، افریقہ کے آنسو،افریقہ میں نصرانیت کا جال سمیت 10 کتابیں شامل ہیں۔ شیخ کی مبارک زندگی پر ان کی چھوٹی بہن نوریہ حمود السمیط نے کتاب لکھی ہے، جس کا نام’’اخی الحبیب‘‘(میرے پیارے بھائی) ہے۔ جبکہ ایک کتاب لبنان کی ڈاکٹر رسمیہ شمسو نے بھی’’رجل من زمن الصحابہ‘‘ (صحابہ کرامؓ کے زمانے کا آدمی) کے نام سے لکھی ہے۔یہ کتاب ان کی زندگی میں ہی چھپی تھی۔ کتاب شائع ہونے کے بعد ڈاکٹر رسمیہ نے اس کا ایک نسخہ شیخ کو بھیجا تو انہوں نے یہ خط لکھا: ’’میری بیٹی! مجھے اس کتاب پر کوئی خوشی نہیں ہوئی، میں نہیں چاہتا کہ کوئی انسان میری زندگی میں میرے بارے میںکچھ لکھے، اب مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں یہ کتاب تمہیں واپس لوٹا دوں۔‘‘
ان کی عظیم خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے متعدد ممالک، شخصیات اور اداروں کی جانب سےانہیں ایوارڈز دیئے گئے۔ کویت کے امیر صباح الاحمد الجابر صباح نے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ’’ذوالوشاح‘‘ دیا۔ 2011ء میں انہیں نوبل پرائز دینے کی اپیل کی گئی۔ لیکن نوبل انعام کمیٹی کسی ایسی شخصیت کو ایوارڈ دینے کا تو سوچ بھی نہیں سکتی، اسے تو ملالہ جیسے لوگ ہی پسند ہیں۔ 1986ء میں خلیج تعاون کونسل نے اور پھر 1996ء میں سعودیہ نے شاہ فیصل ایوارڈ شیخ سمیط کے نام کیا۔ علاوہ ازیں قطر، یو اے ای، مصر اور سوڈان وغیرہ کی طرف سے انہیں اعلیٰ اعزازات دیئے گئے۔ تاہم وہ دنیا کے تمام تر انعامات سے بہت ہی بالاتر شخصیت تھے اور نہ ہی ان کی خدمات کا مقصد کسی دنیوی ایوارڈ کا حصول تھا۔ ان کے شایانِ شان ایوارڈ خالق کائنات ہی عطا فرما سکتے ہیں۔
دعوتی سفر میں شیخ السمیطؒ کو سخت آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا۔ موزمبیق اور کینیا وغیرہ کے جنگلات میں کئی بار جنگلی جانوروں کی زد میں آ گئے اور زہریلے سانپوں نے ان کو کئی بار ڈسا، لیکن رب نے ان کو بچالیا۔ شیخ السمیط کو دوبار جیل بھی جانا پڑا۔ پہلی بار 1970ء میں انہیں بغداد کی جیل میں رکھا گیا اور قریب تھا کہ ان کو سزائے موت دی جاتی، لیکن اللہ نے انہیں بچالیا۔ دوسری بار 1990ء میں کویت اور عراق کے مابین جنگ کے دوران بھی انہیں گرفتار کرکے بد ترین اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی پیشانی اور ہاتھ پیر سے گوشت نوچے گئے۔ اس سلسلے میں کبھی تذکرہ نکلتا تو وہ کہتے کہ مجھے اس وقت یقین تھا کہ موت صرف اسی وقت آئے گی، جس وقت رب تعالیٰ نے میری تقدیر میں لکھی ہوگی۔ وہ اپنے آبائی وطن کویت بہت کم ہی آتے تھے۔ بس رشتے داروں کی زیارت یا علاج کے لیے ہی آتے تھے۔شیخ کی عمر اگرچہ زیادہ نہیں تھی، لیکن ان آزمائشوں اور مشقتوں نے جلدی انہیں بوڑھا کر دیا۔ وہ 65 برس کی عمر میں کافی بیمار ہوگئے۔ ایک بار تو ان کی وفات کی افواہ بھی اڑ گئی تھی۔
بالآخر یہ عظیم انسان 15 اگست 2013ء کو دنیا کے بہت سے یتیموں کو اور مسکینوں کو حقیقت میں یتیم کرکے اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ کویت کے وقت کے مطابق صبح ساڑھے آٹھ بجے ان کی تدفین وتکفین ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے،ان کی لحد پر رحمتیں برساتا رہے اور ہمیں بھی دعوت دین کی عالی محنت کے لیے قبول فرمائے۔ آمین۔ بس ضرورت اس امر ہے کہ مسلمان شیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السمیطؒ جیسی شخصیات کو اپنا آئیڈیل بنالیں، پھر اسلام کے نشاۃ ثانیہ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔