لبرل ڈیموکریزی کا مستقبل اور چین

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 سوال یہ نہیں کہ امریکہ کو افغانستان میں شکست ہوئی یا نہیں ؟ وہ تو امریکی انٹیلی جنشیا خود تسلیم کر رہا ہے کہ ہوچکی۔ حتیٰ کہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی بھی سفارتی زبان کا سہارا لیتے ہوئے فرما چکیں “اسے فتح نہیں کہہ سکتے” جب کوئی چیز فتح نہیں ہوتی تو کیا ہوتی ہے ؟ اس سوال کا جواب پرائمری لیول کا بچہ بھی جانتا ہے۔

اس شکست کو ہضم کرنا صرف ہمارے دیسی لبرلز کے لئے مشکل ہوگیا ہے اور بدقسمتی دیکھئے کہ جن سے ہضم نہیں ہو رہا انہیں ہضم کرانے میں کوئی چورن کارگر نہیں جبکہ جو معمولی سا ہضم کرچکے ان کی صورتحال یہ ہے کہ انہیں قبض کشائی میں اسپغول کی بھوسی کام نہیں دے رہی۔

ان بیچاروں کے لئے امتحان کی کل گھڑی صرف یہ نہیں کہ امریکہ عین ہمارے پڑوس میں ایک بڑی جنگ ہار نے کے بعد بہت بے آبرو ہوکر نکل رہا ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ ہاتھی نکل گیا بس دم باقی ہے۔ اور یہ دم بھی اگست کے اختتام نکل چکے گی بلکہ دیسی لبرلز کی سیاسی روح قبض کرنے والا سانحہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کی “لبرل ڈیموکریسی” تیزی سے زوال کا شکار ہے۔

یوں جس نظریئے کے لئے یہ بھاڑے پر خدمات انجام دے رہے تھے اسی کا وجود داؤ پر لگ چکا ہے۔ اور اس حد تک لگ چکا ہے کہ خود امریکی میڈیا میں اب بتدریج یہ بحث چھڑتی جا رہی ہے کہ نئے عالمی نظام کے طور پر “چائنیز ماڈل” کے خد و خال کیا ہوں گے ؟ یہ بحث اس لئے چھڑی ہے کہ کسی بھی نظام کے زوال کی بڑی علامات یہ ہوتی ہیں کہ سسٹم اس حد تک کمزور پڑ جاتا ہے کہ اسے چلانے والے چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کورونا جیسے عالمی بحران کے دوران “امیر العالم” امریکہ بہادر پوری دنیا چھوڑیئے اپنے قریبی یورپین اتحادیوں تک کی کوئی مدد نہ کر سکا۔ اور اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ یورپ بھی چھوڑیئے خود اپنے چھ لاکھ شہریوں کو بھی موت کے منہ میں جانے سے نہ روک سکا۔ کیا مقام حیرت نہیں کہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک اس بحران کے دوران ڈیموکریسی کے بجائے “ڈیموکریزی” بنا نظر آیا؟۔

دوسری طرف کورونا کی جنم بھومی چائنا کی صورتحال یہ ہے کہ وہ متاثرین کی لسٹ میں پہلے نمبر سے آج 107 ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ یہ وہی چائنا ہے جس کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادی ستر سال سے یہ پروپیگنڈہ کرتے آئے ہیں کہ اس کا نظام انسانوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ لہٰذا چائنیز انسانوں کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ ڈیموکریزی اپنا کر فلاح پا جائیں۔

اندازہ لگایئے، اس “نقصان دہ اور گھٹیا نظام” والے ملک نے کورونا کے خلاف سب سے زبردست کار کردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور دنیا کا سب سے مقدس نظام یعنی ڈیموکریزی کورونا کے خلاف سب سے زیادہ ناکام ثابت ہوا ہے۔

آپ دنیا کے ٹاپ ٹین کورونا متاثرین ممالک کی لسٹ ہی دیکھ لیجئے۔ بھارت اور برازیل کو چھوڑ کر سارے ترقی یافتہ یعنی عظیم ممالک وہاں جلوہ افروز ہیں۔ صحت کے پہلو سے اس وبائی صورتحال کو بھی چھوڑیئے۔

تعلیم، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، معیشت اور سماجی شعبے کی ترقی میں بھی چین کا گھٹیا نظام مغرب کے عظیم نظام کے مقابلے میں اپنے ملک کو چالیس سال کے عرصے میں ایسی رفتار سے ترقی دے چکا ہے کہ خود مغربی ماہرین اسے “معجزہ” قرار دے رہے ہیں۔

عالمی اداروں کی رپورٹ ہے کہ صرف چالیس سال میں چین کی معیشت نے 90 گنا ترقی ہے۔ مغرب کی کھسیانی بلی فرماتی ہے کہ چین نے یہ ترقی ہماری ٹیکنالوجی چرا کر حاصل کی ہے۔ لیکن حقیقت دیکھئے کہ ابھی چار روز قبل ہی یہ کھسیانی بلی خود روس کے ریلوے نظام کے سگنلز کوڈ چراکر بھاگی ہے۔ سوال یہ ہے کہ چین کے گھٹیا نظام نے یہ معجزہ کیونکر رونما کر دکھایا ؟۔

جواب ستر کی دہائی کے آخری نصف میں پڑا ہے۔ ماؤزے تنگ کے بربریت سے بھرپور کلچرل ریولوشن میں ایک ظلم یہ بھی ڈھایا گیا تھا کہ سائنس اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

ماؤ کے انتقال کے بعد گینگ آف فور نے یہ تسلسل جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی اپنے انجام کو پہنچا دیا گیا اور نظر انداز ہی نہیں نظر بند کئے گئے بیسویں صدی کے سب سے بے مثال مدبر ڈنگ ژیاؤ پنگ کو واپس فرنٹ پر لایا گیا اور چین کی قیادت انہیں سونپی گئی۔

ڈنگ نے کمال یہ کیا کہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ فوراً بحال کرکے خود اپنے براہ راست کنٹرول میں لے لیا۔ ڈنگ نے فوراً سب سے بہترین 32 چائنیز سائنسی دماغ طلب کرکے ان سے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے لئے تجاویز طلب کیں۔ ان تجاویز کی روشنی میں اعلیٰ تعلیم کا نظام ہنگامی طور پر بحال کیا گیا اور مستقبل کے لئے اس کا باقاعدہ روڈ میپ تشکیل دیا گیا۔

اس نظام میں کام کے لئے بڑے بڑے اساتذہ اور سائنسی ماہرین غاروں سے روپوشی ترک کرکے واپس آئے کیونکہ ماؤ زے تنگ نے تو انہیں قومی مجرم قرار دے کر گویا واجب القتل ہی قرار دے رکھا تھا۔

یونیورسٹیاں آباد ہوئیں اور چائنیز انجینئرز اور سائنسدانوں کی نئی نسل تیار ہونے لگی۔ وہی نسل جو آج کے جدید چین کی خالق ہے۔ اسی کے ساتھ ڈنگ ژیاؤ پنگ نے ایک قدم معاشی اور دوسرا سیاسی بھی اٹھایا۔ اس کا معاشی قدم یہ تھا کہ چین میں چار اسپیشل اکنامک زون قائم کرکے وہاں فارن انویسٹمنٹ کے لئے دروازے کھول دیئے۔

ایک کمیونسٹ ملک میں کیپٹلسٹ معاشی نظام کی بنیاد پڑتی نظر آئی تو دنیا میں اس کا مثبت پیغام گیامگر آگے چل کر اسے کیپٹلسٹ نہیں بلکہ سوشلسٹ معاشی نظام میں تبدیل کرکے اس بات کا سد باب کر لیا گیا کہ سرمایہ چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے۔ بلکہ چینی معیشت میں ورکر بھی انویسٹر کی طرح ترقی کرے۔

فارن انویسٹمنٹ کے لئے ڈنگ نے یہ شرط رکھدی تھی کہ غیر ملکی سرمایہ کار چین میں تنہاء بزنس کا مالک نہیں بن سکتا، اسے کسی مقامی بزنس مین کے ساتھ پارٹنر شپ کرنی ہوگی جبکہ ڈنگ نے سیاسی قدم یہ اٹھایا کہ امریکہ کو سوویت یونین کے خلاف سیاسی اتحادآفر کردیااور اسے سیاسی ہی رکھا، عسکری نہ بنایا، جو بجائے خود ایک مدبرانہ اقدام تھا۔ یوں سوویت بارڈر پر موجود چین جیسا بڑا ملک امریکہ کی ضرورت بن گیا۔

اس کارڈ کے ذریعے ڈنگ نے امریکہ کی اپنے خلاف سازشوں کا بہترین توڑ کر لیا تھا۔ یوں چین کو دس بارہ سال کی مہلت مل گئی۔ افغانستان سے سوویت انخلاء کے ساتھ ہی امریکہ نے تیانمن اسکوائر والی واردات کھڑکا کر چین میں”ڈیموکریزی انقلاب” برپا کرنے کی کوشش کی مگر ڈنگ نے اسے آہنی ہاتھ سے کچل دیا۔ سوویت زوال کے ساتھ ہی ڈنگ کی ریٹائرمنٹ کا وقت بھی آگیا۔ مگر ریٹائر ہونے سے قبل وہ برطانیہ سے ہانگ کانگ کی واپسی کے معاملات فائنل کرچکا تھا۔

اب زیانگ ژیمن چین کے نئے قائد تھے۔ انہوں نے چار اکنامک زونز کی کامیابی دیکھ کر ان زونز میں اضافہ کرنا شروع کردیا۔ یوں مزید فارن انویسٹمنٹ آتی چلی گئی اور چین کی معیشت مزید بہتری کی طرف گامزن ہوگئی۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ وہی چین ہے کہ جب ساٹھ کی دہائی میں امریکہ خلاء میں قدم رکھ رہا تھا تو عین ان دنوں چینی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اپنی ایک ارب آبادی کے لئے کھانے کا انتظام کیسے کریں ؟۔

نائن الیون کے نتیجے میں امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت چین کے بارڈر پر آ بیٹھا تو چین بے چین نہیں ہوا۔ اس نے امریکہ کی اپنے پڑوس میں آمد کو بالکل چیلنج نہیں کیا اور چپ چاپ معاشی ایجنڈے پر مرکوز رہا۔ ایسے میں آیا 2008ء کا تاریخی سال۔

اب یہ وہ سال ہے کہ عالمی منظرنامے پر تین تاریخی واقعات ہوئے۔ ایک یہ کہ امریکہ میں پہلی بار ایک سیاہ فام صدر باراک اوباما برسر اقتدار آگئے اور اسی کے ردعمل میں اب آنے والے سالوں میں امریکہ میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک عروج پر پہنچنی تھی۔

دوسرا تاریخی واقعہ یہ ہوا کہ افغانستان اور عراق میں خوار ہوتا امریکہ یکایک بدترین مالی بحران سے دوچار ہوگیا۔ دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس لرز اٹھیں۔ خود امریکہ میں ایک ایک صدی عمر والے بینک اور مالیاتی ادارے ڈوب گئے۔

نتیجتاً کیپٹلزم پر اپنے ہی گھر میں اعتماد کمزور ترین سطح پر پہنچ گیا۔ تیسرا تاریخی اور اہم ترین واقعہ یہ ہوا کہ اسی سال چین میں اولمپکس مقابلے منعقد ہوگئے۔ ان مقابلوں میں حصہ لینے کے لئے دنیا بھر سے ہزاروں ایتھلیٹ ہی نہ آئے بلکہ لاکھوں تماشائی اور بزنس کمپنیاں بھی آئیں۔ یوں جس چین کے بارے میں مغرب منفی پروپیگنڈے کرچکا تھا اس سے اسپورٹس ٹورسٹ خوشگوار یادیں لے کر لوٹے۔

اب غور کیجئے تو اس ایک سال میں ایک عجیب ٹرینڈ بنتا نظر آرہا ہے۔ اس سال امریکہ کے لئے تو بڑے خلفشار کی بنیاد پڑ رہی ہے، لیکن چین کے لئے اس کی ترقی کا سب سے اہم ترین موقع بن رہا ہے۔ چین نے کامیاب اولمپکس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے فارن انویسٹمنٹ کے لئے اپنے دروازے پورے کھول دئے۔

یہ وہ دورانیہ تھا جب اہل مغرب کو ان کے کسی معاشی ارسطو نے “آؤٹ سورسنگ” کا مشورہ دے ڈالا تھا۔ امریکہ اور یورپ کی بڑی بڑی کمپنیاں مہنگی مغربی لیبر سے جان چھرانے اور سستی چائنیز لیبر کا فائدہ اٹھانے کے لئے آؤٹ سورسنگ کے خواب کا تعاقب کرتے ہوئے جوق درجوق چین آنا شروع ہوگئیں۔ حتیٰ کہ جنرل موٹرز جیسی بڑی امریکی کمپنی بھی چین آگئی۔ دوسری طرف امریکہ میں جو کارخانے انہوں نے بند کئے وہ چائنیز نے خرید لئے۔

جلد ہی امریکہ کی مارکیٹس چینی مصنوعات سے بھرتی چلی گئیں۔ گاہک مہنگی امریکی مصنوعات کی جگہ سستی چینی مصنوعات خریدتے چلے گئے۔ چین کی اس واردات سے نوبت بہ ایں جا رسید کہ جب کورونا وائرس آیا تو امریکہ کو ماسک اور دیگر طبی آلات تک چین سے خریدنے پڑ رہے تھے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک ماسک کے لئے بھی چین کا محتاج ہوچکا تھا۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کو جنگی قانون لاگو کرکے اپنی کمپنیوں کو اس بات پر مجبور کرنا پڑا کہ وہ ماسک اور وینٹی لیٹرز بنائیں۔

اب منظر یہ ہوچکا تھا کہ امریکہ بہادر اپنے ملک میں ہی کورونا سے نمٹنے میں فیل ہورہا تھا جبکہ دوسری جانب چین اٹلی اور اسپین سمیت دنیا کے مختلف ممالک کی کورونا کے خلاف مدد کو متحرک ہوچکا تھا۔ یہی وہ موقع تھا جب امریکی صدر سے وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ کے دوران امریکی رپورٹر نے سوال کیاکہ “مسٹر پریزیڈنٹ ! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ چین امریکہ سے عالمی قیادت چھین رہا ہے ؟َ”۔اور ڈونلڈ ٹرمپ آئیں، بائیں، شائیں کے سوا کچھ ندارد۔

ایسے میں امریکہ کے صدارتی انتخابات آئے تو دنیا نے صرف انتخابی نتیجہ ہی نہ دیکھا بلکہ کیپٹل ہل پر ٹرمپ کے حملے کی صورت ڈیموکریسی کو ڈیموکریزی بنتے بھی دیکھا۔ یوں آج کی تاریخ میں جہاں امریکہ اندرونی خلفشار کا شکار ہے وہیں چین میں کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریبات جا رہی ہیں۔

وہ تقریبات جن کی مرکزی پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے چین کے صدر شی جنگ پنگ نے یہ تاریخی جملے کہے کہ “دنیا کے کوئی بھی دو پتے ہم شکل نہیں ہیں۔ اور نہ ہی تاریخ، کلچر اور سوشل سسٹم ایک جیسے ہیں۔ ہر ملک کی تاریخ،کلچر اور سوشل سسٹم کے حوالے سے اپنی ایک انفرادیت ہے۔ اور کسی بھی ملک کو کسی دوسرے ملک پر کوئی برتری حاصل نہیں”۔

یہ صرف جملے نہیں ہیں، بلکہ مستقبل کے عالمی نظام کے لئے چین کی اعلان کردہ پالیسی کا خاکہ ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے پوری دنیا کو مغربی کلچر اور نظام کا اسیر کرنے کی کوششیں کرتے آئے ہیں۔ ہمارے ہاں دیسی لبرلز اسی کی دلالی تو کرتے ہیں جبکہ چینی صدر ایسی کوئی حرکت نہ کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی برتری کے چکر میں بھی نہیں ہیں۔

ٹرمپ کی چین کے خلاف اختیار کی گئی جارحانہ پالیسی کو جوبائیڈن نئی بلندی دیتے ہوئے ساؤتھ چائنا سی میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بڑی بحری مشقوں کی تیاری کر رہا ہے۔ کچھ بحری بیڑے پہنچ چکے اور کچھ راستے میں ہیں لیکن چین نے مرعوب ہونے کے بجائے تین روز قبل اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے امریکہ کو ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے۔ چینی وزیر خاجہ نے کہاکہ “اگر امریکہ اب تک دیگر ممالک سے برابری کی بنیاد پر معاملات کرنا نہیں سیکھ سکا۔ تو چین اسے یہ سبق پڑھانے کے لئے تیار ہے”۔

ایسے میں مجھے امریکہ کے چند عظیم زندہ مفکرین میں سے ایک فرانسس فوکویاما کا وہ شوشہ شدت سے یاد آرہا ہے جو انہوں نے ایک مقالے کی صورت 1989ء میں چھوڑتے ہوئے اسے “اینڈ آف ہسٹری” کا عنوان دیا تھا۔ اور اس مقالے سے وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے تھے۔ خلاصہ اس تھیسس کا یہ تھا کہ انسانیت نے ہزاروں سال جس بہتر نظام کی تلاش میں سفر کیا ہے، وہ کمیونزم کے زوال کے ساتھ پورا ہوگیا ہے۔ اب لبرل ڈیموکریسی ہی انسانیت کا آخری اور حتمی نظام ہوگا۔

یہی فوکویاما اب تیس سال بعد فرماتے ہیں “چین میں ون ونڈو سسٹم ہے۔ اگر کوئی شخص بزنس کرنا چاہتا ہے تو ایک ہی کھڑکی سے سارا پروسس مکمل ہوجاتا ہے جبکہ یہاں امریکہ میں اس کام پر مہینوں صرف ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ درجنوں کھڑکیوں (اداروں) سے منظوری کا پروسس مکمل کرکے ہی کار و بار کرنا پڑتا ہے۔ اگر ہمیں چین کا مقابلہ کرنا ہے تو ون ونڈو سسٹم لانا ہوگا” صرف یہی نہیں بلکہ فوکویاما یہ بھی فرماتے ہیں کہ لبرل ڈیموکریسی کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔

نیشنلزم لبرل جمہوریت کے لئے ایک بڑا اور سنگین خطرہ ہے” یہاں از راہ تفنن یہ بھی سنتے جایئے کہ ہمارے ہاں بعض نومولود دیسی لبرلز نیشنلسٹوں کی میٹنگز میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ یعنی یہ احمق یہ تک نہیں جانتے کہ لبرلزم اور نیشنلزم دو متصادم چیزیں ہیں۔ اسی لئے تو ہم انہیں دیسی لبرلرز کہتے ہیں کہ لبرلزم کا اتا پتہ کچھ نہیں بس پتلون پہننے، برگرم کھانے، بلیک لیبل شہد پینے اور ٹھرک کو ہی لبرلزم سمجھ کر بیٹھے ہیں۔

جہاں تک فوکویاما کے اینڈ آف ہسٹری والے شوشے کا تعلق ہے تو اس کے ذکر پر اب خود فوکویاما بھی کھسیانی ہنسی ہنس دیتے ہیں۔ سو آیئے ہم بھی اپنے ان نومولود دیسی لبرلز پر تھوڑا ہنس لیں جنہوں نے پاکستانی سوشل میڈیا پر لبرل ڈیموکریسی کا علم ایک ایسے دور میں اٹھایا جب یہ خود امریکہ میں بھی محفوظ نہیں۔ جہاں تک پرانے دیسی لبرلز کا تعلق ہے تو ان کا کیا ہے۔ یہ تو کسی دور میں سرخے ہوتے تھے۔

سرخی 1992ء میں زائل ہوئی تو راتوں رات منہ ول واشنگٹن شریف کرکے دو نمبر لبرل بن گئے۔ یہ اس بار بھی منہ ول بیجنگ شریف کرنے کو تیار ہوں گے مگر ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ چائنیز بھاڑے کے ٹٹو نہیں پالتے !۔

Related Posts