قیامت کا سماں ہے، ہر سو چیخ و پکار ہے، زمین دہک رہی ہے اور تباہ کن بم برسنے کے بعد دھویں کے مرغولوں سے آسمان سیاہ ہو چکا ہے۔ ہوا میں بارود کی بُو رچی ہے اور دیواروں پر آنسوؤں کی نمی ثبت ہے۔ غزہ کے گلی کوچوں میں موت کا عفریت رقص کناں ہے۔ جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، آج وہاں خامشی ماتم کرتی ہے۔ کسی باپ کے بازو میں بیٹے کی لاش ہے، تو کسی ماں کی گود خالی ہے، آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں، شاید آنسو بھی ختم ہو چکے ہیں۔ کسی کھنڈر میں دبے ہوئے ہاتھ میں ایک پرانا کھلونا ہے، جس سے ابھی زندگی لپٹی ہوئی تھی۔
کوئی بچی اپنی ماں کو آوازیں دے رہی ہے، جو ملبے کے نیچے ہمیشہ کے لیے سو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پورا شہر ایک اجتماعی قبر میں بدل چکا ہے، جہاں سانس لینا بھی جرم ہے۔ غزہ میں زندگی کی تعریف بدل گئی ہے، زندہ وہ نہیں جو سانس لے رہا ہے، بلکہ وہ ہے جس کی لاش کو دفنانے کی جگہ مل گئی ہو۔ دنیا تماشائی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے کاغذوں پر قراردادیں گرد اُڑا رہی ہیں، جبکہ بچوں کی چیخیں زمین پر لکھا جانے والا سب سے خاموش احتجاج بن چکی ہیں۔ بچے کھچے قدسیوں کو بھی ختم کرنے کے لیے فیصلہ کن آپریشن “عرباتِ جدعون” شروع ہو چکا ہے۔ اسپتالوں میں لاشوں اور زخمیوں کی اور قبرستانوں میں میتوں کی گنجائش ختم۔ صرف36گھنٹے میں555بے جاں وجود ادویہ و سہولیات سے خالی برائے نام شفاخانوں میں لائے جاچکے۔ جو زندہ ہیں ان کے دو ہی مشغلے ہیں، صبح شام پیاروں کی تدفین، پھر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نوالے کے حصول کی تگ ودو۔ کبھی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر بھی خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے۔19مارچ سے محصور پٹی میں آب و دانہ کی رسائی مسدود۔ راستوں پر سنگینوں کے پہرے۔ پانی کی بوتل یا دوا کی شیشی بھی پٹی میں داخل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے بھوک، پیاس اور افلاس مجسم ہو کر الگ سے لاغر وجودوں کو کھا رہا ہے۔65ہزار بچے غذائی قلت سے موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ “بے بسی” بھی ان کی بے بسی کو بیان کرنے سے بے بس۔ حقیقی معنوں میں زمین تنگ ہوچکی۔ کلیجے منہ کو آرہے ہیں۔ مگر فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ اب تو فریاد کی بھی سکت نہیں رہی۔ دنیا کی ایسی سنگ دلی کا ایک قوم پہلی دفعہ مشاہدہ کر رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کیمروں کے سامنے اور دنیا کی نگاہوں کے آگے ایک قوم کی نسل مٹائی جا رہی ہے۔ مگر ہر طرف سکوت مرگ طاری ہے۔ جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس لیے دنیا سے مایوس ہو کر ایک سادہ مگر سنجیدہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ہم پر ایٹم بم برسا دو۔ یہ تمہارا احسان ہوگا تاکہ اس اذیت ناک اور سسکتی زندگی سے نجات ملے! یہ کوئی مبالغہ نہیں، بلکہ بین الاقوامی خبر رساں ادارے ”انٹر پریس سروس” (آئی پی ایس) نے مظلومانِ قدس کے اس مطالبے پر رپورٹ شائع کی ہے۔ صورتحال اتنی ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ اب قدسی کسی روشنی کی توقع نہیں رکھتے۔ اب جسے موت اپنی آغوش میں لے لیتی ہے، اسے خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ یوں غزہ میں موت بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ بھوک کے مارے بچے جب امدادی اداروں کے مراکز سے اپنے برتن خالی لے کر واپس لوٹتے ہیں تو جابجا بکھری قبروں کے پاس گزرتے ہوئے وہ آپس میں سرگوشی کرتے ہیں کہ “احمد شہید” کتنا خوش قسمت ہے، وہ جنت کے میوے کھا رہا ہوگا اور ہم یہاں ایک نوالے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ کاش کہ ہم بھی جلد شہید ہو جائیں۔
غزہ دردوں کا دَر اور دکھوں کا گھر ہے۔ اس کا نوحہ لکھنے کے لیے بھی کسی ابوالکلام کا قلم درکار ہے۔ وہ بھی شاید اس تکلیف کو الفاظ کا جامہ نہ پہنا سکے، جس سے اہل غزہ گزر رہے ہیں۔ الجزیرہ کے نمائندے انس الشریف نے جمعہ کی صبح سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھی کہ “مجھے پتہ ہے آپ لوگ مزے سے سوئے ہوں گے۔ مگر ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔” صہیونی فوج نے غزہ کو مکمل طور پر ملیامیٹ کرنے کے آپریشن “عرباتِ جدعون” کا آغاز کر دیا ہے۔ ہفتہ کے روز اس خوفناک مہم کی شروعات کا آفیشلی اعلان کر دیا گیا۔ یہ کئی ہفتوں کی مسلسل تیاریوں کے بعد شروع کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد بے خانماں فلسطینیوں کو دربدر کرکے غزہ پر مکمل قبضہ اور حماس سمیت دیگر مزاحمتی قوتوں کا مکمل صفایا ہے۔ واضح رہے کہ اس آپریشن کا آغاز عین ہفتہ کے روز کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہودی مذہب میں ہفتہ کا دن (سبت) بہت مقدس ہے۔ اس دن کوئی کام بالخصوص جنگ کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
عرباتِ جدعون؟
“عربات جدعون” ایک عبرانی اصطلاح ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے “جدعون کی گاڑیاں” یا “جدعون کے پہیے”۔ انگریزی میں اسے(Gideon’s Chariots)کا نام دیا جاتا ہے۔ “جدعون”(Gideon) ایک بائبلی (تورات/ عہدِ قدیم) کردار ہے، جو اسرائیلیوں کا ایک معروف فوجی رہنما اور قاضی تھا، جسے ایک طرح سے اسرائیل کا نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس نے دشمنوں، خاص طور پر مدیانیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑی تھی۔ صہیونیوں نے فتح مبین حاصل کرنے کے لیے اس آپریشن کا نام جدعون سے موسوم کیا ہے۔ اسرائیل میں اکثر فوجی کارروائیوں کو بائبلی یا علامتی نام دیئے جاتے ہیں تاکہ اہلکاروں کو تاریخی، مذہبی اور نفسیاتی تاثر کے تحت جنگ پر آمادہ کیا جائے تاکہ وہ اسے خالص مذہبی جذبے سے لڑیں۔ پھر “جدعون” کا نام اس لیے بھی چنا گیا ہے کہ وہ ایک چھوٹے گروہ کے ساتھ دشمن کی بڑی فوج کو شکست دینے والا رہنما تھا، یعنی یہ ایک ماہرانہ فوجی حکمتِ عملی کی علامت ہے۔19 ماہ کی مسلسل جنگ کے باوجود جب اسرائیل فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیموں کو شکست نہ دے سکا تو آخر میں یہ جدعون کے نام سے یہ آپریشن لانچ کیا گیا۔ آپریشن کی تکمیل کے بعد غزہ میں یہودی آبادگاروں کو بسایا جائے گا۔ بالخصوص امریکا سے آنے والے صہیونیوں کو۔ اس آپریشن کے تحت فضائی کارروائیوں کا آغاز چار دن پہلے ہی ہوگیا تھا، پھر ایک ساتھ زمینی اور بحری کارروائیاں شروع کی گئی ہیں۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے اس بائبلی نام کی حامل فوجی کارروائی کے نتیجے میں حماس کو شکست دینے کے ساتھ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرایا جائے گا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی حصوں، خاص طور پر بیت لاہیا اور جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں شدید فضائی اور زمینی حملے شروع کیے ہیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ جمعہ کی صبح تک گزشتہ36گھنٹوں کے دوران250سے زاید لاشیں اسپتالوں میں پہنچائی گئیں۔ جبکہ بے شمار لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ شدید بمباری کے باعث نہ تو امدادی ٹیمیں ان تک پہنچ سکتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اتنے آلات ہیں کہ وہ ملبہ ہٹا کر لاشوں کو نکال سکیں۔ ہفتہ کی صبح آپریشن عربات جدعون کے آغاز کے بعد چند گھنٹوں کے دوران60فلسطینی شہید اور130زخمی ہوگئے۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نسل کشی کی مشین کس تیزی کے ساتھ حرکت میں آگئی ہے۔
فوجی حکمت عملی:
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں غزہ کے تمام شہریوں کو شمالی سے جنوبی حصوں میں منتقل کیا جائے گا تاکہ حماس سے علیحدگی ممکن ہو سکے۔ اس کے علاوہ، اسرائیلی فوج ہر قبضہ شدہ علاقے میں مستقل موجودگی کے لیے اپنے مراکز قائم کرے گی تاکہ حماس کی واپسی کو روکا جا سکے۔ شمالی غزہ کے باسیوں کو فی الفور علاقہ خالی کرکے جنوب کی طرف منتقل ہونے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ لیکن جو لوگ بے سروسامانی کے عالم میں ٹوٹے پھوٹے گھروں اور خیموں کو چھوڑ کر جان بچانے کے لیے نکلتے ہیں تو اسرائیلی طیارے انہیں بھی نشانہ بناتے ہیں۔ یہ آپریشن تین مراحل میں مکمل کرنے کا پلان ہے۔ پہلا مرحلہ شدید فضائی بمباری سے شروع کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بحری اور زمینی حملوں کا بھی آغاز کیا گیا۔ اسی مرحلے میں شہریوں کو جنوب میں منتقل کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں زمینی افواج کو آگے بڑھانا ہے اور غزہ کے علاقوں پر قبضہ اور ممکنہ طویل مدتی فوجی موجودگی کی تیاری کرنی ہوگی اور تیسرے و آخری مرحلے میں ایک اسرائیلی سیکورٹی انتظامیہ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ پھر فلسطینی آبادی کو دیگر مقامات (شاید بین الاقوامی سرزمین یا لیبیا) پر “رضاکارانہ” منتقلی کی اسکیم کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
فلسطینی کہاں جائیں گے؟
منصوبے کے تحت تباہ کن بمباری سے غزہ کے باشندوں کو رفح میں جمع کیا جائے گا۔ پھر صحرائے نقب کے قریب رامون ہوائی اڈے کے قریب واقع پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا جائے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس حوالے سے امریکی نیوز چینل “این بی سی نیوز” نے پانچ باخبر ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت ایک ملین(10لاکھ) فلسطینیوں کو مستقل طور پر غزہ سے لیبیا منتقل کیا جائے گا۔ دو باخبر افراد اور ایک سابق امریکی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ یہ منصوبہ اتنا سنجیدہ ہے کہ امریکہ نے اس پر لیبیا کی قیادت کے ساتھ بات چیت بھی کی ہے۔ مزید یہ کہ فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے کے بدلے میں امریکہ وہ اربوں ڈالرز کی رقم جاری کرے گا جو واشنگٹن نے10سال سے زائد عرصے سے منجمد کر رکھی ہے۔
ایک طرف غزہ میں قیامت کا یہ سماں ہے اور فلسطینیوں کے بھوکوں مرنے کا خطرہ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ حقیقت کا روپ دھاتا جا رہا ہے تو دوسری جانب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر عرب حکام کی طرف سے دولت کی بارش نے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو امریکی صدر کے دورۂ خلیج کے دوران ملنے والی حمایت سے غیر معمولی حوصلہ ملا ہے۔ اس لیے “عربات جدعون” آپریشن کو وقت سے پہلے ہی شروع کیا گیا۔ عبرانی ذرائع نے اطلاع دی تھی کہ افرادی قوت کی قلت کے باعث یہ آپریشن اگلے ماہ کے وسط تک شروع کرنا تھا۔ اب اسرائیل کو یقین ہوگیا ہے کہ عرب ممالک غزہ سے مکمل لاتعلق ہو چکے ہیں اور ان کی تمام تر دلچسپی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات پر مرکوز ہے۔ اسرائیل نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر غزہ کو صاف کرنے کا فیصلہ کن آپریشن شروع کر دیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے قتل عام میں شریک ہونے کے باوجود ٹرمپ کو خلیج میں جو پذیرائی ملی ہے، اس سے امریکی اتحادی اسرائیل کو بھی شہہ ملی ہے۔ انوسٹمنٹ کے نام پر ٹرمپ نے خلیجی “اتحادیوں” سے جتنی وصولی کی ہے، اس کی مثال شاید ہی انسانی تاریخ میں مل سکے۔ یک مشت، صرف3دن میں3320ارب ڈالرز۔ بقول برادرم عارف انیس کے اتنی بڑی آگراہی سکندر اعظم، امیر تیمور، چنگیز و ہلاکو خان اپنی تمام تر مار دھاڑ کے باوجود نہ کر سکے تھے، جو ٹرمپ نے پیار پیار میں کر دکھایا۔ ایسی لوٹ مار کے لیے برطانوی سامراج کو ہندوستان پر190سال تک حکومت کرنی پڑی تھی۔ معروف معاشی ماہر اتسا پٹ نائیک کی تحقیق کے مطابق1765ءسے1938ء تک انگریز نے جو رقم لوٹ کر برطانیہ منتقل کی، اس کا اندازہ تقریباً45کھرب ڈالر لگایا گیا ہے اور ٹرمپ نے صرف3دن میں اتنی رقم جمع کی کہ تاریخ رقم ہوگئی۔3320ارب ڈالر کو اگر ہم پاکستانی کرنسی میں دیکھنا چاہیں تو یہ تقریباً925کھرب روپے بنتی ہے۔ کتنی؟925,284,000,000,000روپے۔ جس کی تفصیل یوں ہے:
سعودیہ عرب:720ارب ڈالر
قطر:1200ارب ڈالر
یو اے ای:1400ارب ڈالر
یعنی ان عرب ممالک نے کل ملا کر امریکا سے3320ارب ڈالر انوسٹمنٹ کے معاہدے کیے ہیں۔ پچھلے سات دن میں، مودی کی پشت میں شرلی چھوڑنے کے علاوہ ٹرمپ نے سعودیہ، قطر اور متحدہ عرب امارات کے دوروں میں تقریباً تین ٹریلین ڈالرز کے باہمی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ اب امریکا کو عظیم بنانے کا رستہ عرب کے ریگزاروں سے ہو کر جاتا ہے۔ اس کا آدھا بھی سچ ہو جائے تو اگلے پچاس برس تک، امریکا دنیا کے سینے پر ایسے ہی مونگ دلتا رہے گا۔
باقی سب اپنی جگہ مگر آرٹ آف ڈیل کے مصنف صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا بیوپاری ثابت کر دکھایا۔
معاشی ماہرین کے بقول یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ تقریباً چار سال تک امریکا کے دفاعی بجٹ کے لیے کافی ہے۔ حالانکہ امریکا دنیا میں دفاع پر خرچ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سالانہ تقریباً8سو ارب ڈالر۔ جبکہ اس سے آکسفورڈ جیسی200یونیورسٹیاں بنا کر5سال تک چلائی جاسکتی ہیں اور پاکستان جیسا ملک تقریباً نصف صدی(48برس) تک اپنا پورا بجٹ اس رقم سے بناسکتا ہے۔ خلیجی حکام کی دریا دلی کی یہ خبر جب میڈیا پر آئی تو غزہ میں کھانے کے حصول کے لیے لمبی قطار میں کھڑے ایک فلسطینی بڑے جذباتی انداز میں میڈیا سے مخاطب تھا کہ ہم ایک ایک نوالے کو ترس رہے ہیں اور عرب حکام ٹرمپ کو ایک ایک ہزار ارب ڈالر دے رہے ہیں۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔