سال بھر پرانی بات ہے۔ ہم نے پٹواری لبرلز کے خلاف کوئی ٹویٹ کی تو ایک جے یو آئی ورکر آستین چڑھا کر ان کے دفاع کے لئے سامنے آگئے۔
ہم نے جواباً عرض کی کہ نون لیگ سے اپنے رومانس پر زیادہ پھدکنے کی ضرورت نہیں۔ جلد وہ وقت آئے گا جب یہی پٹواری لبرلز فضل الرحمٰن کو مولانا کی جگہ پھر سے ملا قرار دے ڈالیں گے۔ تب آپ کے آنسو خود آپ کو ہی پونچھنے پڑیں گے۔ لیجئے صاحب، وہ وقت آگیا۔ چند دن قبل وجاہت مسعود نے ترنگ میں آکر فرمایا، ملا فضل الرحمٰن نے اٹھارھویں ترمیم میں فلاں فلاں گند فرمایا ہے۔ چلیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو فضل الرحمن پچھلے تین سال سے دیسی لبرلز کیلئے مولانا فضل الرحمٰن بن گئے تھے وہ اب یکدم پھر سے ملا فضل الرحمٰن کیوں ہوگئے؟
اس کا پہلا اشارہ مولانا فضل الرحمٰن کے اس شکوے سے ملتا ہے جو دبئی میں ہونے والی ملاقاتوں میں شریک نہ کرنے پر انہوں نے فرمایا ہے۔ دبئی کی ملاقاتیں ان جماعتوں کی بیٹھک تھی جو ماضی میں اقتدار سنبھالتی بھی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی اس کا امکان رکھتی ہیں۔ مولانا کو تو ان کی 11 سیٹوں کے مطابق تھوڑا سا حصہ ہی ملتا ہے۔ اب حصہ داروں کو کون ہم پلہ مقام دیتا ہے؟ حیرت ہے یہ بات مولانا جیسے کہنہ مشق سیاستدان بھی نہ سمجھ سکے۔ کیا ہم نے ماضی میں بار بار دیکھا نہیں کہ خود محترمہ بینظیر بھٹو بھی جب اپوزیشن میں ہوتیں اور کوئی تحریک برپا کرنے کا سوچتیں تو سنگل سیٹ والے نوابزادہ نصر اللہ خان کو اتحاد کا صدر بنا کر آگے کر دیتیں۔ مگر جوں ہی انتخابات کا موقع آتا تو وہ نوابزادہ کو یوں نظر انداز فرما دیتیں جیسے ان کا کوئی سیاسی وجود ہو ہی نہیں۔
نوابزادہ نصراللہ خان اور مولانا فضل الرحمٰن میں قدرِ مشترک یہی ہے کہ اپنے اپنے عہد کے ”بزرگ سیاستدان“۔ نوابزادہ اپنے شاعرانہ ذوق تو مولانا لطائف اور چٹکلوں کے سبب میڈیا کیلئے پرکشش۔ دونوں اپوزیشن کیلئے تو موزوں تر مگر اقتدار میں کسی بڑی پارٹی کیلئے کوئی خطرہ نہیں۔ نوابزادہ تو زیرک انسان تھے سو بخوبی سمجھتے تھے کہ انہیں ضرورت کے تحت باپ بنایا جا رہا ہے۔ چنانچہ وہ بس اجلاسوں کی صدارت تک ہی رہتے۔
لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پی ڈی ایم صدارت کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا تھا۔ کروڑوں روپے کے خرچے بھی کر ڈالے اور جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں کی دوڑیں بھی خوب لگوا لیں۔اس باب میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے ان کا پورا پورا استعمال کیا۔ تحریک کے دوران اپنے صحافیوں کے ذریعے انہیں خوب پمپ کرکے خرچہ بھی کروایا اور ہلہ گلہ بھی مچوا لیا۔ لیکن جب انتخابات کا وقت قریب آیا تو وہی کیا جو نوابزادہ کے ساتھ بھی کرتے آئے تھے۔
ہم کسی زمانے میں مولانا فضل الرحمٰن کے بہت قریب رہے ہیں۔ سو ذاتی تجربے کی روشنی میں جانتے ہیں کہ جب ہوا موافق ہو اور ہوائی گھوڑا توانا تو مولانا کی قریب کی نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ سو ہم ہی انہیں بتا دیتے ہیں کہ ان کے قریب ایسا کیا چل رہا ہے جو انہیں نظر نہیں آرہا۔ بات صرف یہ نہیں کہ مولانا کو دبئی نہیں بلایا گیا بلکہ اس سے آگے کے بھی کچھ منصوبے ایسے ہیں جن میں مولانا فضل الرحمٰن کے حلوے پر ہاتھ صاف کرنے کے عزائم ہیں۔ آپ صرف ایک ہی مثال سے اندازہ لگا لیجئے۔ پیپلز پارٹی کیلئے اگلے الیکشن میں اہم چیلنج یہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اپنی وہ سیٹیں پھر سے حاصل کرنی ہیں جن سے وہ 2013 سے محروم چلی آرہی ہے۔
اس مقصد کیلئے پیپلز پارٹی نے خاص طور پر سندھ سے باہر کی ان سیٹوں کی فہرست بنائی ہے جو یہ جماعت ماضی میں دو یا اس سے زائد بار جیت چکی ہے۔ ایسی سیٹوں میں سرِ فہرست ڈیرہ اسماعیل خان کی وہ سیٹ ہے جسے مولانا نے 8 انتخابات میں صرف 3 بار جیتا ہے۔ اس سیٹ پر پیپلز پارٹی جے یو آئی کے ساتھ برابر کی شراکت دار ہے اور اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی اس سیٹ کو ہر صورت میں جیتنے کا عزم رکھتی ہے۔ کون جیتے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ہمارا مولانا کو مشورہ ہے کہ وہ احتیاطاً اگلے الیکشن میں بھی بنوں والی سیٹ سے ضرور کھڑے ہوں۔ کیونکہ اس پر اکرم خان درانی کی جیسی اجارہ داری ہے ویسی مولانا کی اپنی ڈی آئی خان والی سیٹ پر نہیں ہے۔ مولانا کی بڑی حد تک یقینی جیت بنوں سے ہی ممکن ہے۔
آج کل اسلام آباد میں اقتدار کے گلیاروں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ الیکشن اکتوبر میں ہی کرائے جائیں یا کچھ ماہ بعد؟ مزے کی بات یہ کہ یہ مولانا فضل الرحمٰن ہی تھے جنہوں نے چند ماہ قبل کہا تھا:
”انتخابات ایک سال آگے بھی بڑھائے جاسکتے ہیں۔“
تب وہ عمران خان کو ڈرا رہے تھے مگر آج اسی امکان سے خود خوف کا شکار ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔ یہی رائے پیپلزپارٹی کی بھی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے جیسے مولانا اور پیپلزپارٹی کا مؤقف اصولی ہو۔ لیکن اصول تو یہ بھی ہے کہ انتخابات آئینی طور پر نئی مردم شماری کے نتیجے میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی ممکن ہیں۔ تو مولانا اس اصول کو کیوں نظر انداز کر ہے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ مولانا کیلئے اپنی سیٹوں کا خطرہ صرف ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی نہیں بلکہ اس ہزارہ ڈویژن میں بھی ہے جہاں نون لیگ گہرا اثر رکھتی ہے۔ اور وہیں چند قومی و صوبائی سیٹوں پر جے یو آئی بھی بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی بے چینی سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ نون لیگ کا مؤقف اور اس مؤقف کا پس منظر سمجھ لیا جائے۔ اگر انتخابات اکتوبر میں ہوں تو نون لیگ کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ اس کے قائد میاں نواز شریف جسٹس بندیال کے ہوتے ہوئے پاکستان آنے کا رسک نہیں لے سکتے اور جسٹس بندیال 16 ستمبر کو ریٹائر ہوں گے۔ ظاہر ہے نواز شریف کی اپیل اس کے بعد ہی عدالت جا سکتی ہے۔ اگر عدالت اس پر کوئی فیصلہ کرنے میں دو تین ہفتے کی بھی تاخیر کر دیتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ میاں نواز شریف اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت نہیں کر پائیں گے۔ کیونکہ اکتوبر میں تو انتخابات ہوں گے، انہیں اس کی مہلت ہی نہیں مل پائے گی۔
یہی وہ چیز ہے جس کا مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلز پارٹی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری بخوبی جانتے ہیں کہ اگر نواز شریف کو پوری انتخابی مہم چلانے کا موقع مل گیا تو آنے والے الیکشن میں نواز شریف کی ہوا پوری قوت سے چلنی ہے۔ نواز شریف ایک ایسے رہنما کے طور پر سیاسی اکھاڑے میں ہوں گے جن کے ساتھ 2018ء کا انتخابی کھلواڑ ہوا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران میاں نواز شریف جو حوالہ مستقل استعمال کریں گے وہ 2018ء والے انتخابی فراڈ کا ہوگا۔ پاناما والے جبر کا واحد نشانہ تو نون لیگ بنی تھی۔ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کو تو کسی نے چھوا بھی نہ تھا۔ یہ دنوں پارٹیاں اتنی ہی سیٹوں پر 2018ء میں بھی کامیاب ہوئی تھیں جتنی سیٹیں یہ عام طور پر لیتی آئی ہیں جبکہ نون لیگ کیلئے تو وہ الیکشن ایک بدترین جبر ثابت ہوا تھا۔
ظاہر ہے آنے والی انتخابی مہم کا موقع اگر نواز شریف کو ملا تو اس انتخابی مہم کی بنیاد وہ 2018ء والے جبر پر ہی رکھیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ نون لیگ کا ورکر اور ووٹر گویا انتقامی جذبے کے ساتھ میدان میں ہوگا۔ جمہوریت کے بہترین انتقام ہونے کا دعویٰ سالوں قبل آصف زرداری نے فرمایا تھا مگر اسے عملی شکل نواز شریف دیں گے۔ اور یہی مولانا فضل الرحمٰن اور آصف زرداری کا خوف ہے۔ سو انہیں لگتا ہے کہ نواز شریف کی تیز آندھی سے بچنے کی واحد صورت یہی ہے کہ انتخابات اکتوبر میں ہوں اور نواز شریف کو انتخابی مہم کا کم سے کم موقع ملے۔