ملک سے باہر ڈوبتے ہوئے پاکستانی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صدیق سالک کی کتاب میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا کے مواد کو تاریخی کہا جائے یا اختلافی، اس سے قطعِ نظر کتاب کے عنوان کو دیکھ کر ایک تاریخی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تھا، سو اس عنوان میں ڈھاکہ کو ڈوبتے دیکھنے کا مطلب اپنے اصل وطن سے الگ ہوجانا تھا، آج بنگلہ دیش کی حیثیت کچھ بھی ہو، اس کا موجودہ پاکستان سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔

اسی طرح جب ہم اپنا وطن چھوڑ کر کسی اور دیس میں جانے، وہاں بسنے اور پھر برسرِ روزگار ہو کر وہیں مستقل قیام پذیر ہونے کی سوچتے ہیں تو موجودہ وطن سے ہمارا تعلق بھی برائے نام رہ جاتا ہے۔

ہمارا تعلق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہم وہاں سے اپنے وطن کیلئے یا پھر اپنے عزیز و اقارب کیلئے رقوم بھیجیں جو غیر ملکی زرِ مبادلہ کہلاتی ہیں، یعنی ایسی امداد جو ملک سے باہر سے آئی ہو۔

عالمی میڈیا پر آج سے 2 روز قبل اور پاکستان میں گزشتہ روز یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ یونان کے سمندر میں تارکینِ وطن کی کشتی ڈوب گئی اور 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے جس پر 500 سے زائد افراد سوار تھے۔

دراصل یہ کشتی غیر قانونی تارکینِ وطن کو سمندر کے راستے سے لیبیا سے اٹلی لے کر جاتی ہوئی اس خوفناک حادثے کا شکار ہوئی اور زیادہ افسوسناک بات یہ رہی کہ بعض رپورٹس کے مطابق اس پر زیادہ تر پاکستانی سوار تھے۔

ممکن ہے کہ حادثے کا شکار کشتی میں پاکستانیوں کی کم ہی تعداد سوار ہو یا بالکل نہ ہو، لیکن یہ کوئی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے اور ہم خوب جانتے ہیں کہ ایسے کتنے ہی واقعات میں درجنوں پاکستانی اپنی جان کی بازی ہارچکے ہیں۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب پاکستانی قوم ملک سے باہر جانے کی تگ و دو کر رہی ہے تو کچھ لوگ انہیں باہر جانے کا جھانسہ دے کر رقم بھی بٹور لیتے ہیں اور انہیں باہر بھجوانے کیلئے غیر قانونی ذرائع کا سہارا لے کر ان کی جان بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔

پھر یہ لوگ کبھی آکسیجن کی کمی کے باعث تو کبھی ڈوبنے کی وجہ سے اور کبھی غیر ملکی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گولیوں کا نشانہ بن کر اِس دارِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔

اس ہلاکت کا طریقہ کچھ بھی ہو، وطن سے دور جاں بحق ہونے والے افراد کی موت بڑی کسمپرسی کی حالت میں ہوتی ہے۔ اگر ان کی میتیں وطن واپس بھی پہنچ جائیں تو انہیں دنیا سے گزرے ہوئے کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

اور جو لوگ زندہ بچ جاتے ہیں، زیادہ تر صورتوں میں انہیں ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے اور ایسے لوگ اپنے ہی وطن کیلئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اہلِ وطن ان واقعات سے عبرت پکڑیں اور آئندہ اس قسم کی واقعات کی روک تھام کیلئے مؤثر حکمتِ عملی تشکیل دی جائے اور اس پر عمل بھی کیاجائے۔ 

Related Posts