سائفرڈرامہ۔۔ پاکستان نشانہ؟

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے اقوام عالم کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی اور پائیداری کیلئے کام کررہا ہے۔

کچھ برسوں کے دوران پاکستان کے دوست اور شراکت دار ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی اور کھنچاؤ کا عنصر بھی دیکھا گیا تاہم پاکستان کے محل و قوع کے اعتبار سے ایک مسلمہ اہمیت کی وجہ سے بااثر ممالک پاکستان کو یکسر نظر انداز کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں تاہم ایسے حالات میں سفارتی آداب کی خلاف ورزی اور الزام تراشی ہمارے  لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پہلے سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے امریکی سازش کا واویلا مچایا گیا اور جب اس میں سیاسی کامیابی نہ ہوسکی تو عمران خان ان تمام الزامات کا رخ اپنے اداروں کی طرف موڑ کر اپنے ہی عسکری اداروں کے سربراہان کو کبھی میر صادق، کبھی میر جعفر جیسے القاب سے نوازتے رہے جس سے ان کے اپنے ہی بیانیے کی کھلم کھلا نفی ہوگئی۔

سیاسی طوفان میں عمران خان کے مخالفین کی جانب سے سائفر کے حوالے سے فرضی کہانی کے الزامات بھی سامنے آتے رہے لیکن چیئرمین پی ٹی آئی سائفر کو حقیقت قرار دیتے رہے تاہم گزشتہ حکومت کے وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے مجسٹریٹ کے سامنے بیان کے بعد یہ معاملہ بالکل واضح ہوگیا ہے جس کی تردید ممکن نہیں اور اس کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

نہایت افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان نے صرف اپنا اقتدار بچانے کیلئے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو خطرے میں ڈال دیا۔ بطور سابق سفیر راقم الحروف اس بات کا شاہد ہے کہ کئی بار آف دی ریکارڈ ہم سے لوگ بہت سے معاملات پر گفتگوکیا کرتے تھے جس میں اگر کوئی ضروری بات ہوتی تو ہم سائفر میں اس کا تذکرہ کرتے۔

سائفر کےاقتباسات کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرنا ناقابل فہم بات ہے اور یہاں اہم چیز تو یہ ہے کہ جس شخص کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا اس کی حیثیت ایک ایڈیشنل سیکریٹری سے زیادہ نہیں تھی۔ ڈونلڈ لو کے ایک برسبیل تذکرہ سرسری بیان کو پاکستان کے خلاف سازش کا رخ دے کر امریکا نہیں بلکہ برسہا برس سے جاری پاک امریکا خوشگوار تعلقات کو نقصان پہنچایا گیا۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 1 میں یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی خود مختار ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ اگر ہم سائفر کو حقیقت مان لیں تو یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا لیکن سائفر کے متعلق بے بنیاد الزامات کی قیمت پاکستان کو امریکا کے ساتھ برسہا برس سے جاری دوستانہ تعلقات میں کشیدگی کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔

دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف انداز میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ لاگو ہوتا ہے، پاکستان میں 1923ء کا آفیشل سیکریٹ ایکٹ نافذ ہے جس میں سخت قدغنوں اور سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے۔

سفارتی قوانین و آداب کے مطابق اگر کسی ملک میں تعینات سفیر کیبل یا سائفر بھیجتا ہے تو اس کی درجہ بندی سیکرٹ اور ٹاپ سیکرٹ سے کم نہیں ہوا کرتی اور اس کی نقل بنانے کی بھی حدود قیود ہوتی ہیں۔ اگر ضرورت کے تحت اس کی نقل بنائی بھی جاتی ہے تو اس کی درجہ بندی بھی وہی ہوتی ہے اور کاؤنٹنگ بھی اسی طرح ہوتی ہے۔

سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان یا کسی اور کو حساس دستاویز کہیں چھوڑنے کا اختیار نہیں تھا اوروزیراعظم سے لے کر نیچے تک کسی بھی شخص کو حساس نوعیت کی دستاویز اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ امریکا میں اس کی مثال سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جو اپنے دور اقتدار میں کچھ دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے جس کی پاداش میں آج انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

سائفر کی سازش رچانے والوں کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہونے کے بعد ہی گرفتاریاں اور تحقیقات ہوں گی اور ممکن ہے کہ اس کیس کے حوالے سے مزید حقائق بھی منظر عام پر آئیں ۔

ملک سے باہر موجود سفراء کی جانب سے آنے والے سائفر کیلئے دفتر خارجہ میں سیف روم ہوتا ہے جہاں سائفر کی ڈی کوڈنگ کی جاتی ہے اور پھر اس کو الفاظ میں تبدیل کرکے مجاز اتھارٹی یعنی سیکریٹری خارجہ کو پیش کیا جاتا ہے ۔ سیکریٹری خارجہ صدر، وزیراعظم اور وزیرخارجہ کے ساتھ اکا دکا عسکری اداروں کے سربراہان کو معاملے کی نوعیت کا تعین کرکے آگاہی فراہم کرتا ہے تاہم اس کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ یاایس او پیز کے تحت مکمل طور پر خفیہ رکھا جاتا ہے۔

 مقررہ مدت کے بعد سائفر کو ڈی کوڈ  یا ضائع کرنے کے حوالے سے مجاز اتھارٹی کو فیصلے کا اختیار ہوتا ہے اور اس پورے عمل میں کوئی چیز لیک ہوتی ہے تو یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 کی زد میں آتا ہے اور اسی آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں اسکی سزا بھی متعین ہے۔ اب تحقیقاتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کڑیوں کو جوڑ کر معاملے کی تہہ تک جائیں اور معاملے سے جڑے تمام کرداروں کو سامنے لاتے ہوئے سب کو شامل تفتیش کیا جائے۔

راقم الحروف نے بطور سفیر حکومت پاکستان کو کئی ایسے پیغامات ارسال کیے کہ اگر انہیں کہیں لہرا کر دکھادیا جاتا تو شاید جنیوا کنونشن کے تحت ملک کیلئے مشکلات کا سبب بن سکتا تھااور مجھے بطور سفیر پرسنل نان گریٹا (پی این جی ) قرار دیا جاسکتا تھا جو ملک کیلئے ہزیمت کا سبب بن سکتا تھا۔

اقوام متحدہ اور مختلف ممالک میں بطور سفیر خدمات کے دوران سائفر یا کیبل کو اس طرح لیک کرنے اور سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی تاہم اس پورے معاملے میں امریکا نے بردباری کا مظاہرہ کیا لیکن اس واقعے کے بعد اقوام عالم میں ہمیں سنجیدہ نہیں لیا جائے گا۔ ہمارے سفراء سے بات کرنے میں لوگ ہچکچائیں گے کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہ بات موجود ہوگی کہ پاکستانی سفراء سے کی گئی بات لیک بھی ہوسکتی ہے ۔

اقوام عالم کے درمیان تعلقات کا قیام اور دوام بہت مشکل امر ہوتا ہے کیونکہ دو ممالک کے تعلقات کا دار و مدار باہمی مفادات سے منسلک ہوتا ہے اس لئے سفارتی آداب پر کاربند رہنا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں سائفر کا ڈرامہ انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ ایسے معاملات اور الزامات کئی بار جنگوں تک بھی پہنچاسکتے ہیں۔

سائفر کے کھیل سے پاکستان کو اقوام عالم میں بہت زیادہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور تعلقات میں جو رخنہ آیا وہ الگ ہے۔پاکستان کو سائفر کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کے اثرات سے نکلنے میں کچھ وقت لگے گا۔ سائفر کی سازش نے امریکا کو بھی تعجب میں ڈال دیا تھااور امریکی حکام کو اپنے عوام کو مطمئن کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوا ہوگا اس لیے اس سائفر کے اثرات فوری ختم ہونا مشکل امر ہے اور اس سازش کے نقصانات پاکستان کو مستقبل میں بھی اٹھانا پڑسکتے ہیں۔