جیسے جیسے حکومت کی مدتِ اقتدار اختتام کے نزدیک پہنچتی جارہی ہے، نگراں سیٹ اپ کی تشکیل اور عبوری وزیر اعظم کے عہدے کیلئے مشاورت کا عمل جاری ہے۔
ابھی تک اسمبلیوں کی تحلیل کیلئے کوئی واضح تاریخ متعین نہیں ہوسکی، تاہم یہ واضح ہے کہ اسمبلیاں آئندہ ماہ 14 اگست سے قبل ہی تحلیل ہوجائیں گی جبکہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عبوری وزیر اعظم کے عہدے کیلئے موزوں شخص منتخب کرے۔
آئین اس تقرری کا طریقہ کار بیان کرتا ہے جو عموماً اپوزیشن اور حکومت کے مابین مشاورت سے ہوتا ہے۔ تحریکِ انصاف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد مضبوط اپوزیشن کی غیر حاضری میں اتحادی حکومت کی جماعتوں کے مابین اہم مشاورت جاری ہے۔
یقینی طور پر پی ڈی ایم کی اتحادی سیاسی جماعتیں عبوری سیٹ اپ میں بھی اپنے نمائندوں کو سامنے لانا چاہتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کا اتحاد کن بیساکھیوں پر موجود ہے، پی ٹی آئی کو سیاست سے بے دخل کرنے اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے مشاورت ہورہی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اتحادی جماعتوں، خصوصاً پی پی پی کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں اور اتحادیوں سے آئندہ سیٹ اپ اور انتخابات کے انعقاد پر مذاکرات کیلئے کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جبکہ اتحادیوں کو سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں نگراں حکومت میں زیادہ دلچسپی ہے۔
یقیناً سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں بھی تحلیل ہوجائیں گی۔ ایم کیو ایم کا ماننا ہے کہ سندھ کے عبوری وزیر اعلیٰ کے عہدے پر ان کا ہی حق بنتا ہے جبکہ بی اے پی یقین رکھتی ہے کہ بلوچستان میں عبوری سیٹ اپ کیلئے اس کا کلیدی کردار تسلیم کیا جائے گا۔
نگرا سیٹ اپ کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی مذاکرات کی قیادت کرنے والی سیاسی جماعتیں ہیں جبکہ عبوری حکومت کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر اور غیر جانبدار ہونا چاہئے۔ یہ نگراں حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہوگی کہ انتخابات آئین کے مطابق آزادانہ، منصفانہ اور شفاف ہوں۔
ماضی میں ایسے عہدوں پر ریٹائرڈ بیوکریٹس یا ججز کو تعینات کیا جاتا تھا، تاہم اس بار یہ اطلاعات ہیں کہ اس عہدے پر کسی سیاستدان کا تقرر کیا جاسکتا ہے جس کا پلڑا کسی ایک طرف یقیناً جھکے گا۔
تاحال وزیر اعظم شہباز شریف نے قائدِ حزبِ اختلاف سے مشاورت نہیں کی جو آئینی ضرورت ہے تاہم اب یہ رسمی معاملہ محسوس ہوتا ہے۔ انتخابات کب ہوں گے یہ اس پر منحصر ہے کہ نگراں حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے جبکہ نگراں حکومت کے پاس انتخابات کیلئے 2 سے 3 ماہ کا وقت ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کلیدی عہدے پر کسے تعینات کیا جائے گا اور کسے چھوٹے موٹے عہدے سے نوازا جائے گا۔
یہ مسلسل تیسری جمہوری طور پر منتخب حکومت ہوگی جس نے اپنی مدت پوری کی ہو لیکن یہ ایک غیر معمولی حکومت بھی ہوگی جس میں دو مختلف جماعتیں اقتدار میں آئیں گی، ضروری ہے کہ ملک میں جمہوریت کے عمل کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے۔