مراکش کے مختلف شہروں میں شادی کے رسم و رواج مختلف ہیں، مگر صحرائی علاقوں میں ایک قدیم اور دلچسپ روایت آج بھی کئی نسلوں سے قائم ہے۔ یہاں دلہن کو شادی سے چند ماہ پہلے جسمانی طور پر فربہ کرنے کی تیاری کی جاتی ہے۔
صحرائی شعراء اور ادیبوں نے اپنی تحریروں میں صحرائی خواتین کو فربہ اور بھرے جسم کے ساتھ مثالی طور پر پیش کیا ہے، گویا وہ زمین کی طرح زرخیز اور اپنے خاندان کے لیے ایک قیمتی خزانہ ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے جنوبی مراکش کے شہر کلمیم میں اس رواج کے حوالے سے ایک خاتون نگراں “ام المنین” سے ملاقات کی، جنہوں نے بتایا کہ یہ عمل ایک پرانا پیشہ ہے جس کے تحت لڑکیاں بلوغت کی عمر پر یا اس سے پہلے شادی سے کچھ ماہ پہلے ان کے گھروں یا خیموں میں لے آتی ہیں تاکہ ان کا جسم فربہ کیا جا سکے۔
ام المنین کے مطابق اس عمل کو کرنے والوں کو “معلمہ” یا “خادم” کہا جاتا ہے اور اس میں صبر و مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عمل کئی مہینے بھی لے سکتا ہے اور اس کا انحصار لڑکی کی کھانے پینے کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ لڑکی کو فربہ کرنے کے لیے جڑی بوٹیاں، اونٹ کا دودھ اور گوشت دیا جاتا ہے، اور اس سے پہلے اس کے ہاضمے کے نظام کو صاف کیا جاتا ہے تاکہ یہ عمل جلدی اثر کرے۔
ام المنین نے وضاحت کی کہ ان کا کام صرف جسم کو فربہ کرنا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دلہن کے جسم کے مخصوص حصے نمایاں اور خوبصورت دکھائی دیں تاکہ وہ اس طرح نظر آئیں جیسے صحرائی مرد چاہتے ہیں۔
عوامی ورثے کے محقق بوزید الغلی نے کہا کہ شادی سے پہلے لڑکی کو فربہ کرنا ایک رواج ہے جو اب بھی صحرائی خاندانوں میں رائج ہے۔ بوزید کے مطابق، اگرچہ اس عمل میں تبدیلی آئی ہے، مگر یہ صرف ثقافت کا حصہ نہیں بلکہ لڑکی کے سماجی مقام اور خاندان کے معاشی مرتبے کی علامت بھی ہے۔