ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اوقات سحر و افطار کی یاد بھی وابستہ ہوتی ہے۔ اسی طرح افطاری کے وقت اسپیکروں پر سائرن کی آواز بھی لازمی ہے۔
ماضی میں اوقات سحر و افطار کی مانند ماہ مقدس کی تمام نمازوں کے اوقات بھی شامل کرکے امساکیہ رمضان جاری کی جاتی تھی۔ ’’امساکیہ رمضان‘‘ کے ساتھ روزہ دار ماہ صیام میں پورے دن کا نظام الاوقات مرتب کرتے تھے۔ اسی طرح ہارن کی جگہ ’’افطار توپ‘‘ کے ذریعہ سے افطاری کا اعلان کیا جاتا تھا۔
مصر میں اس حوالے سے اوقات سحر و افطار کے حوالے سے امساکیہ افطار اور افطاری کے اعلان کے حوالے سے افطار توپ کا تصور زیادہ پرانا نہیں ہوا۔
امساک کا معنی رکنا ہے۔ رمضان میں کھانے پینے سے رکنے کے اوقات کو بتانے کے اعتبار سے نظام الاوقات کو ’’ امساکیہ‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس ’’امساکیہ‘‘ میں ماہ صیام کے دنوں میں پانچوں نمازوں کے اوقات، افطار کا وقت اور ہر دن کھانے سے رک جانے کا وقت یعنی سحری کے ختم ہونے کا وقت درج کیا جاتا تھا۔ مصر میں ’’امساکیہ رمضان‘‘ اور ’’ افطار توپ‘‘ کی تاریخ کیسے شروع ہوئے اس حوالے سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔
’’امساکیہ رمضان‘‘ کی کہانی کیا ہے؟
یہ بھی پڑھیں:
دیس دیس کا رمضان: اردن کی خاص رمضانی ڈش منسف جسے ثقافتی اہمیت حاصل ہے
اسلامی تاریخ کے محقق ڈاکٹر احمد عادل کا کہنا ہے کہ ’’امساکیہ‘‘ پہلی مرتبہ مصر پر 1805 سے 1848 کے عرصہ میں حکومت کرنے والے محمد علی پاشا کے دور میں خاص طور پر 1846 عیسوی میں سامنے آئی۔ اسے نماز، روزے کے اوقات کو ترتیب دینے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس میں طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا وقت ہجری کیلنڈر کے مطابق ترتیب وار انداز میں پیش کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر احمد عادل نے ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’’امساکیہ‘‘ ایک صفحہ پر مشتمل تھا جس کے اوپر محمد علی کی تصویر تھی اور اس کے آگے ایک عبارت تھی ۔ ’’رمضان کا پہلا دن پیر ہے اور اس کا چاند جنوب میں دیکھا گیا، اس کی روشنی بہت زیادہ تھی اور اونچائی بہت کم‘‘۔
’’افطار توپ‘‘ کا آغاز
دوسری طرف افطار توپ کے متعلق مصری محقق نے بتایا کہ امساکیہ کے علاوہ محمد علی نے توپوں کا ایک گروپ درآمد کیا جس میں سے ایک جرمنی سے تھی ۔ محمد علی نے یہ توپ اپنے محل کے اوپر نصب کی تاکہ ایک گولہ سحری کے وقت فائر کیا جا سکے اور دوسرا افطاری کے وقت۔ اس وقت سے توپ اور رمضان المبارک کا تصور آپس میں جڑ گیا۔
یہ بھی پڑھیں:
دیس دیس کا رمضان: مصر و شام میں روزہ داروں کی سب سے پسندیدہ ڈش قطائف کیا ہے؟
احمد عادل نے بتایا کہ خدیوی اسماعیل جس نے 1863 سے 1879 تک مصر پر حکومت کی تھی نے پھر اپنے دور حکومت میں امساکیہ کی شکل میں ترمیم کی۔ ہجری کے ساتھ ساتھ گریگورین کیلنڈر بھی متعارف کرایا۔ اس نے ایک اور توپ بھی حاصل کی، جسے اس نے “الحاجہ فاطمہ” توپ کہا۔ یہ نام اس نے اپنی بیٹی فاطمہ بنت اسماعیل کے حوالے سے رکھا۔ اس توپ کو اس نے بعد میں مصری یونیورسٹی یا “قاہرہ یونیورسٹی” قائم کرنے کے لیے عطیہ کردیا تھا۔
مصری محقق کے مطابق افطاری کی توپیں پھیلنا شروع ہوئیں اور بیسویں صدی کے آغاز میں ان کی تعداد 5 توپوں تک پہنچ گئی جن میں سے دو قلعہ میں، دو عباسیہ محلے میں اور ایک ہیلیو پولس میں نصب تھی۔ اس کے بعد امساکیہ اور افطار توپ رمضان المبارک کا اہم جزو بن گئے۔