مسئلہ یہ نہیں کہ قومی مسائل کا کوئی حل نہیں یا ہمارے پاس درست حل سوچنے والے دماغ نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن معاشرے میں اس حد تک سرایت کر گئی ہے کہ نہ تو کوئی ادارہ اس سے محفوظ ہے اور نہ ہی طبقہ۔
اس حوالے سے صورتحال اتنی ابتر ہے کہ ملک و معاشرہ اسلامی ہے، سو اصولی طور پر خدا خوفی کا عنصر غالب ہونا چاہئے۔ مگر یہی عنصر تو سب سے زیادہ مذہبی طبقے سے غائب نظر آتا ہے۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ خدا اور غریب کے نام پر چندہ کرنے والی مذہبی تنظیمیں چندہ ایسے پروجیکٹس کے نام پر مانگتی آئی ہیں جو آپ کی رسائی باہر ہوں ؟مثلا چیچنیا، بوسنیا،، فلسطین، شام اور برما وغیرہ۔ اور اگر کوئی تنظیم اندرون ملک کا حوالہ رکھتی ہو تو کسی ایسے کنویں کے نام پر چندہ مانگا جاتا ہے جو صحرائے تھر کے اس پر کھودنا ہو۔
کراچی کی پچاس فیصد آبادی کو پانی کی کمی کا سامناہے۔ مگر کراچی میں چندہ مانگنے والے کو کنواں صحرائے تھر کے اس پار ہی کھودنا ہے۔ حضور کچھ سمجھے ؟
جب کرپشن اس بڑے پیمانے پر عام ہوجائے تو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خود غرضی ایسا منشور بن جاتی ہے جس کے لئے آفت کو نعمت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اور کوشش کی جاتی ہے کہ آفت سے فوری نہ نمٹا جائے بلکہ اسے طول دیا جائے تاکہ کمائی جاری رہے۔
بلوچستان کا مسئلہ وہ آفت ہے جس سے بلوچ بھی متاثر ہے اور باقی ملک بھی۔ اگرچہ یہ ایک قدیمی مسئلہ ہے مگر اپنی موجودہ شکل میں یہ اس بڑی آفت کی پیداوار ہے جو وار آن ٹیرر کہلاتا تھا۔ تب ملک کو امریکی ڈرونز اور ٹی ٹی پی وغیر کا زیادہ شدت سے سامنا تھا سو بلوچستا کا مسئلہ قدرے کمتر درجے کا نظر آتا تھا۔ وار آن ٹیرر افغانستان میں ختم ہوگئی۔
امریکہ ہی نہیں اس کے اتحادی بھی وہاں سے رخصت ہوچکے۔ جو ان سے لڑ رہے تھے وہ اب اپنے ملک کی تعمیر نو میں مصروف ہیں۔ مگر وار آن ٹیرر کی ایک فورس ایسی ہے جو اب بھی حالت جنگ میں ہے۔اور یہ حالت جنگ میں رہنے پر بضد ہے۔
یہ آرٹ ہم نے امریکہ سے ہی سیکھا ہے کہ دشمن کی شکل بیشک بدلتے رہو مگر ایسا لمحہ نہیں گزرنا چاہئے جب کوئی دشمن ہی نہ ہو۔ اس سے “کاروبار” خوب پھلتا پھولتا ہے۔ ابھی چند ہی روز قبل ہی “دشمن” کے علاقے سے چلغوزے کی ریکارڈ پیداوار کی رپورٹ آئی ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ بھی اسی لئے طول پکڑے ہوئے ہے کہ وہاں بھی ہم چلغوزے کے ایسے جنگل اگانا چاہتے ہیں جن کی پیداوار کا کسی چیمبر آف کامرس سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔ وہ پیداوار جس کا قوم کو ٹکے کا بھی فائدہ نہ ہو مگر اسے سراہنا قوم کے ہر فرد پر واجب ہو۔
بلوچستان کیا آپ پی ٹی آئی کا مسئلہ ہی دیکھ لیجئے۔ اس جماعت کو بطور مسئلہ مسلسل زندہ رکھا جا رہا ہے کہ نہیں ؟ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ پی ٹی آئی کا بطور مسئلہ موجود رہنے میں پی ٹی آئی کا کوئی عمل دخل ہے تو بھول ہے آپ کی۔ اس مسئلے کو بھی اسی قوت نے مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر حاوی رکھا ہوا ہے جو پچھلے ستر سال سے سیاسی چلغوزے اگا رہی ہے۔
انڈین فلم “مقبول” تو دیکھی ہوگی ؟ اس کا ایک مشہور ڈائیلاگ ہے “آگ کے لئے پانی کا ڈر بنے رہنا چاہئے” خادم اعلی سے خادم اعظم کے منصب پر پروموشن پانے والے کی تابعداری و فرمانبرداری بسر چشم مسلم مگر اگلے رسک لینے کے موڈ میں نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا چلغوزے والوں کو اتنا فائدہ نہ تھا جتنا فائدہ قیدی عمران خان سے ہو رہا ہے۔ خادم اعظم کو مستقل دباؤ میں رکھنے کے لئے وہ ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔ اگر خدا نخواستہ خادم اعظم کبھی “گمراہ ہوئے تو بس اتنی سی خبر بریک ہونے کی دیر ہوگی۔
“انتہائی باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ رات تین بج کر ستائیس منٹ اور پینتیس سیکنڈ پر اڈیا جیل کے پھاٹک کھلے اور ایک بڑی شخصیت جیل میں داخل ہوئی۔ یہ شخصیت تقریبا تین گھنٹے جیل میں رہی”
دو منٹ میں خادم اعظم صراط مستقیم پر ہوں گے۔اور وزارت اطلاعات سے بیان جاری ہوگا کہ خادم اعظم نے فرمایا ہے کہ حکومت چلغوزے کے تاجروں کے بیچ غلط فہمیاں پیدا کرنے والے منہ کی کھائیں گے۔ ایسی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی۔
حضور بات یہ ہے کہ اگر کسی کو بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا ہوا تو وہ اس کی ابتداء کچھ یوں کرے گا کہ بلوچوں سے کہے کا، ہم آپ کا احساس محرومی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جواب میں بلوچ کہے گا، اس طرح کی ہر کوشش میں ہم نے صرف پنجابیوں کے احساس محرومی ختم ہوتے دیکھے ہیں۔
پروجیکٹ بلوچستان کا ہوتا ہے اور چلانے والے پنجاب کے۔ صاحب اختیار اگر مخلص ہوا تو وہ اسے جینئن رکاوٹ کے طور پر قبول کرے گا اور یقین دلائے گا کہ ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ کسی بھی پوسٹ پر پنجابی کو نہیں آنے دیا جائے گا۔
اب چونکہ ایک سنگین مسئلہ بلوچوں میں تعلیم کی کمی کا ہے۔ سو آغاز صنعت کی بجائے زراعت سے کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تعلیم کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی پڑھے لکھے پنجابی کی۔ برساتی پانی کے بڑے ذخائر ہی نہیں بلکہ نہری نظام کی تشکیل سے بلوچستان کے شعبہ زراعت کو اٹھان دی جائے۔
رعایت اللہ فاروقی کے دیگر کالمز پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگر پوری ایمانداری سے کام کیا جائے تو زرعی انقلاب کی ہلکی سی جھلک ہی بلوچوں کا اعتماد بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ لوگ سبز باغ کے چکر میں آجاتے ہیں، یہ تو پھر بھی حقیقی باغ ہوں گے۔
یہ صوبہ جتنا بڑا ہے افرادی قوت اس کی اتنی ہی کم ہے۔ سو اس صوبے کے پوری افرادی قوت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جلد وہ موقع آئے گا جب بلوچوں کی افرادی قوت اس صوبے کی پوری برکات سمیٹنے کے لئے ناکافی ہوجائے گی۔ تب وہ خود پنجابیوں اور سندھیوں سے پارٹنرشپ کی بات چلائیں گے اور انہیں یہ خوف بالکل نہ ہوگا کہ پنجابی ان کے صوبے پر قبضہ کرلیں گے۔ مسئلہ اعتماد کا فقدان ہے۔
جب آپ انہی کے صوبے میں بلوچ کو نوکر اور پنجابی کو افسر بنانے کی حکمت عملی چلائیں گے تو بلوچ کو غصہ تو آئے گا۔ گوادر میں ہم نے یہی گل تو کھلا رکھے ہیں۔ اگر بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا ہے تو اس کے ڈیپارٹمنٹس سے پنجابیوں کو دور رکھئے۔ بلکہ قانونی پابندیاں عائد کردیجئے کہ اس صوبے میں پنجابی افسر تعینات نہیں ہوسکتا۔
کیا چین اور روس نے اپنی اقلیتوں کا اعتماد جیتنے کے لئے امتیازی قوانین نہیں بنا رکھے ؟ چین کا ایک ریاست دو نظام والا تصور کیا چیز ہے ؟ایک ہی چین ہے مگر اس کے ہانگ کانگ پر وہی قوانین لاگو نہیں ہیں جو قدیمی چین کے لئے ہیں۔
سو بلوچ قوم عددی لحاظ سے ایک اقلیت ہے۔ اس کے پاس وسائل سے مالامال وسیع رقبہ ہے۔ مگر اس سے نہ تو بلوچ فائدہ اٹھا پا رہے ہیں اور نہ ہی ملک۔ وجہ کیا ہے ؟ بلوچ کی بداعتمادی۔
ہمیں معلوم ہے اس بداعتمادی میں ان کے سرداروں کا بھی اہم رول ہے۔ اس کا علاج یہ نہیں کہ آپ عام بلوچ سے کہیں کہ بھئی آپ کا سردار آپ کو گمراہ کر رہا ہے۔ آپ جوں ہی یہ کہیں گے بلوچ کہے گا آپ مجھے سردار سے کاٹنا چاہتے ہیں۔ یوں مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید الجھ جائے گا۔
آپ تو یہ کیجئے کہ بلوچ جو بھی کہے اسے قبول کر لیجئے۔ وہ کہے پنجابی افسر نہیں چاہئے تو آپ کہئے ٹھیک ہے، وہ کہے فوجی چھاؤنی نہیں بنے گی تو آپ اسے بھی قبول کر لیجئے۔
غرضیکہ کہ ہر اس وجہ کو دور کردیجئے جسے بلوچ بداعتمادی کا سبب بتائے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، بلوچ کے دو ہی بڑے خوف ہیں۔ ایک پنجابی اور دوسرا فوجی چھاؤنی۔ یہ ہم اور آپ جانتے ہیں کہ ہماری فوج پاک فوج ہے۔ بلوچ ایسا نہیں سمجھتا۔ وہ اسے پنجابی فوج کی نظر سے دیکھتا ہے اور چلغوزے والوں نے ضد پکڑ رکھی ہے کہ ہم نے بلوچوں کے یہ خوف دور نہیں کرنے۔
یہ شکایات رفع نہیں کرنیں۔ مسئلہ حل کرنا ہے تو راستہ ہم نے بتا دیا۔ چلغوزے کا جنگل اگانا ہے تو وہ تو بلوچ آپ کو نہیں اگانے دے گا۔ سو فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ آپ کے چلغوزے کا جنگل زیادہ ضروری ہے یا بلوچستان کے مسئلے کا حل ؟