سی پیک پر لہراتے دہشت گردی کے سائے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کے معاملے پر طویل مذاکرات ہوئے اور وزیراعظم شہباز شریف کے دورۂ چین کے موقعے پر اور پھر گزشتہ روز چینی وزیر لی جیان ژاؤ سے ملاقات کے دوران بھی سی پیک سمیت پاک چین دوستی کے دیگر امور پر  تبصرہ ہوا جس کا لبِ لباب  وہی روایتی الفاظ و کلمات رہے  کہ پاک چین دوستی آزمائش کی ہر کسوٹی پر پوری اتری ہے۔

جہاں تک سکیورٹی معاملات کا تعلق ہے تو پاکستان نے چین کے ہمراہ مشترکہ بیان میں سکیورٹی معاملات کا ذکر کیا اور شہباز شریف کے دورہ چین کے بعد جاری اعلامیے میں نکتہ نمبر 4 اور 7 میں دونوں ممالک نے اتفاق رائے سے چینی قافلے کے داسو پراجیکٹ پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کی۔

نکتہ نمبر 4 کی بات کی جائے تو پاکستان اور چین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بہت سی دوسری چیزوں کے علاوہ دونوں ممالک مشترکہ کاوشوں سے دہشت گردی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے لیکن پاک چین دوستی اور سی پیک کے حوالے سے دیگر حقائق بھی قابلِ غور ہیں جن میں امریکا کی خارجہ پالیسی بھی شامل ہے جس کا پہلا نکتہ (چائنہ کنٹینمنٹ پالیسی)ہی چین کو مختلف محاذوں پر پیشرفت سے روکنا ہے۔

ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک  ان صف بندیوں کا ایک تسلسل ہے  جس میں گلوبل ویسٹ سے گلوبل ایسٹ کی طرف توازن بڑھتا جارہا ہے اور اگر AIIB کی بات کی جائے تو چین اور بھارت ایک ساتھ کھڑے ہیں اور بھارت اور چین کے مابین تجارت کا حجم 100 ارب ڈالرز سےزائد ہے جبکہ راقم الحروف جیسے بہت سے تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ چین اب جیو اکنامکس سے جیو پولیٹیکل  کی طرف بڑھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ ہر ملک اپنے اقتصادی مفاد کو بچانے کیلئے جیو پولیٹیکل معاملات کو دوام بخشتا ہے جو خودبخود آگے جا کر عسکری قوت کو بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔

پاک چین مشترکہ بیان کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی جانب سے سکیورٹی کا خاص طور پر ذکر ہوا اور پاکستان کے اس سال ہونے والے عام انتخابات کو 6 ماہ گزر چکے ہیں۔ پاکستان نے نہ صرف اپنے ملک کے عوام کیلئے بلکہ چین جیسے بیرونی شراکت داروں کے لیے بھی سکیورٹی کے حوالے سے  کوششیں اور کاوشیں جاری رکھیں۔ پاکستان نے اپنے نیشنل ایکشن پلان کا از سر نو جائزہ بھی لیا۔

نیشنل ایکشن پلان میں ابتدائی طور پر 20 نکات شامل تھے کہ دہشت گردی سے کیسے نمٹا جائے تاہم اب یہ 14 نکات پر مشتمل ہے اور چین  کو بھی یقیناً باور کرایا جاچکا ہوگا کہ ان  14 نکات پر عملدرآمد  ایک ضروری امر ہے جس میں پاکستان کو کچھ ہچکولوں کا سامنابھی ہوسکتا ہےاور اسی وجہ سے  چین ان نکات کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے۔ پاکستان اور بھارت سمیت خطے کے دیگر جنوبی ایشیائی ممالک خوب سمجھتے ہیں کہ اس خطے کو غیر مستحکم کرنے کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟

یہ حقیقت بھی دنیا پر عیاں ہے کہ پاکستان امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوا اوراس سے قبل  سوویت یونین کے خلاف  بھی پاکستان نے امریکا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر جنگ لڑی اور اسی وجہ سے پاکستان اب تک خمیازہ بھگت رہا ہے۔ کیونکہ اقوامِ عالم خاص طور پر امریکا اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد ہاتھ جھاڑ کرواپس چلا گیا اور جنگ کی باقیات شدت پسندوں کی صورت میں پاکستان اور گردونواح میں چھوڑ گیا۔ اس بات کی غمازی ہیلری کلنٹن نے بھی 2011 کے اپنے بیان میں ظاہر کی تھی ۔ جیسا کہ  اس سے قبل ذکر کیا گیا، امریکا نے چین کی مختلف محاذوں پر پیشرفت کی روک تھام کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنا رکھا ہے اور جب علی الاعلان کسی بات کا ذکر ہوتا ہے تو اس پر عملدرآمد بھی کیاجاتا ہے۔

چین اور پاکستان بخوبی سمجھتے ہیں کہ سی پیک کے معاملات پر امریکا سمیت اس کے ہم نوا مغربی ممالک کس اعتبار سے نظر رکھے ہوئے ہیں اور جب بیرونی عناصر کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کی جاتی ہے جس کے تانے بانے بھارت سمیت دیگر ممالک سے جا کر مل جاتے ہیں تو ایسے ممالک کا نام ظاہر کرنے سے قبل خارجہ پالیسی کے بہت سے نکات کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔

مثال کے طور پر سکھ برادری کے رہنما کو کینیڈا میں قتل کردیا گیا جس پر کینیڈین پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھارت کی نریندر مودی حکومت پر الزام عائد کیا اور ایسے ہی مختلف واقعات کی تحقیقات میں امریکا کی جانب سے بھی انٹیلی جنس کی صورت میں تعاون کیا گیا جس پر کینیڈا اور بھارت کے تعلقات آج بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

ایسے میں پاکستان بھی کینیڈا کی مثال سامنے رکھتے ہوئے ایسے تمام عناصر کے نام سامنے لانے کا سوچ سکتا ہے تاہم خارجہ پالیسی اور عالمی برادری میں شامل مختلف ممالک کے باہمی تعلقات کے پیچھے عوامی مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔ سی پیک پر لہراتے ہوئے دہشت گردی کے سایوں کو دیکھنا اور بین الاقوامی سیاست کے مختلف مسائل پر نظر رکھنا اہم عناصر ہیں۔

بی آر آئی کا سب سے اہم جزو سی پیک پر چین نے کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جس سے دنیا کے 142ممالک منسلک ہوچکے ہیں اور اسی وجہ سے ہمارا ہمسایہ ملک ان منصوبوں سے پیچھے ہٹنے یا انہیں کسی بھی طرح کمزور ہوتا دیکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ہمارے ہمسایہ دوست چین کو بخوبی علم ہے کہ سمندری راستوں سے اس کے مخالف جب چاہیں اس کا گلا گھونٹ سکتے ہیں۔ ایسے میں اپنے تیل کی رسد کیلئے گوادر سے سی پیک کے محفوظ راستے میں ہی چین کا سب سے بڑا مفاد ملحق ہے۔  ایسے میں پاکستان کی جانب سے چینی شہریوں کی سکیورٹی کی ضمانت بھی ایک اہم معاملہ تھا جس پر دونوں ممالک نے کھل کر روشنی ڈالی ہے اور جس پر پاکستان کو یقیناً مزید کام کرنا پڑ ےگا جو کہ نہ صرف چین کے سی پیک کیلئے  مفید ہوگا بلکہ دنیا کے دوسرے سرمایہ کاروں کیلئے بھی راہیں ہموار کرے گا۔

بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک کو یہ سمجھنا ہوگا کہ سی پیک سے صرف پاکستان یا چین کو نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک اور مغربی ممالک کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور یہ منصوبہ آنے والے وقت میں بہت سے ممالک کے دو طرفہ تعلقات اور مشترکہ مفادات کو ایک نئی سمت دینے کیلئے اہم اور کلیدی نکتہ ثابت ہوسکتا ہے، مگر ایسا ہونے میں جو یونی پولر پاور کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں اور جن رکاوٹوں میں مزید اضافے کیلئے گلوبل ویسٹ کی کوششیں جاری ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی آر آئی اور سی پیک کے ثمرات حاصل کرنے سے پہلے تمام جیوپولیٹیکل حالات میں بڑے ہچکولے آنے باقی ہیں اور ان ہچکولوں میں کون کس لہر کی نذر ہوجاتا ہے، یہ آنے والے قریبی وقت میں پتہ پڑ جائے گا اور ایسے میں پاکستان جیسے ملک کو سنبھل سنبھل کر قدم رکھنا ہوگا۔ کسی بھی لغزش کی اتنی بڑی قیمت ہوسکتی ہے کہ پاکستان ایسی کسی بھی لغزش کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

Related Posts