کچھ دنوں سے ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے، یہ واقعات ایسے وقت میں سامنے آرہے ہیں جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM) ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے ریلیاں اور مظاہرے کررہی ہے، جس سے یہ شبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ آیا ان کے درمیان کوئی ربط ہے یا نہیں۔
تازہ واقعہ پشاور میں اس وقت پیش آیا جب ایک زور دار بم دھماکہ مدرسے میں ہوا، جس کے نتیجے میں 7طلباء شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، مدرسے میں بچوں کے شہید ہونے والے واقعے نے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے زخم بھی دوبارہ تازہ کردیئے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار بچے ہورہے ہیں، کچھ دن قبل کوئٹہ کے مضافات میں ایک اور واقعہ پیش آیا، جس میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
اگرچہ پاکستان نے امن و امان کی صورتحال میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے، لیکن دہشت گردی کی کارروائیوں میں اچانک اضافہ ہوجانا باعث تشویش ہے،نیکٹا نے کوئٹہ اور پشاور میں ہونے والے ممکنہ واقعات کے حوالے سے سیکیورٹی الرٹ جاری کیا تھا، اور ان کے خدشات سچ ثابت ہوگئے۔وفاقی دارالحکومت کے ساتھ ساتھ سندھ اور پنجاب کے کچھ حصوں میں بھی الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکیورٹی ادارے چوکس رہیں۔
کوئٹہ میں PDM کے ایک سیاسی جلسے کے انعقاد سے چند روز قبل سیکیورٹی الرٹ بڑھا دیا گیا تھا۔ حکومتِ بلوچستان کی جانب سے انتباہ کے باوجود، اپوزیشن اتحاد نے جلسے کا انعقاد کیا اور ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ اتفاق ہوسکتا ہے لیکن ایک ہی وقت میں جب حکومت مخالف مظاہرے ہورہے ہیں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے نے سنگین سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔
اس تمام صورتحال سے ہمیں 2018 میں وزیر اعظم کے ایک بیان کی یاد آئی جب انہوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ جب نواز شریف پریشانی میں ہیں تو سرحد کے ساتھ ہی دہشت گرد حملوں میں اچانک اضافہ کیوں ہوگیا؟ انہوں نے ہندوستان پر الزام لگایا تھا کہ ہندوستان نواز شریف کے معاملے سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ سب کچھ کررہا ہے، کیا ابھی بھی وزیر اعظم عمران خان اس ساری صورتحال کا ذمہ دار بھارت کوٹھہرائیں گے؟یا پھر اُسے اتفاقیاں قرار دیں گے۔
مسلم لیگ (ن) نے وزیر اعظم عمران خان پرالزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ریاستی اداروں کو اپوزیشن کے خلاف کھڑا کیا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے اور اس کی بھرپور مذمت کی جانی چاہئے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ کیا ہمارے دشمن مضبوط ہو رہے ہیں جب ہم اپنی لڑائی میں مصروف ہیں۔