2009ء کی بات ہے ہمارے قدیمی دوست سلیم محمود نے ہم سے پوچھا
“تم نے فیس بک پر اکاؤنٹ بنایا ہے ؟”
ہم نے جوابا سوال کیا
“کوئی نیا بینک ہے ؟”
وہ ہنس دیئے اور فیس بک سے متعلق چند بنیادی معلومات مہیا کردیں۔ چیز ہمیں دلچسپ لگی سو ان سے درخواست کی ہمارا اکاؤنٹ بھی بنا دیجئے اور ہمیں اس کا استعمال بھی سمجھا دیجئے۔ سلیم بھائی کی مہربانی کہ وہیں بیٹھے بیٹھے ہماری خواہش کی تکمیل کردی۔
اس ابتدائی دور میں ہمارا خیال تھا کہ یہ تصویریں سٹاک اور شائع کرنے والی سائٹ ہے۔ سو اگلے چار ساڑھے چار سال ہم نے اس کا یہی استعمال کیا۔ اور وہ بھی یوں کہ تین چار ماہ میں ایک آدھ بار ہی اس پر سائن اِن ہوتے اور کوئی تصویر اپلود کرکے نکل جاتے۔ کبھی کبھار اپنے 284 فرینڈز میں سے کسی کی تصویر پر تبصرہ بھی کر دیتے۔
2014ء کی بالکل ابتداء تھی جب ہمارے ایک بڑے ہی مہربان صحافی دوست وحید مراد نے ہم سے سوال کیا
“تم فیس بک پر لکھتے کیوں نہیں ؟”
ہم نے انہیں حیرت سے دیکھا۔ ہمارے لئے یہ گویا بالکل نئی سی بات تھی ۔ اور بات بھی ایسی جسے دل نے بالکل قبول نہ کیا۔ چنانچہ ہم نے وحید کی تجویز قبول نہ کی۔ مگر اس کے بعد تو جیسے وحید نے یہ اپنا ایجنڈا ہی بنا لیا کہ ہم سے فیس پر لکھوانا ہے۔ اسی دوران ہمارے ایک اور صحافی دوست سبوخ سید نے بھی اس کا اصرار شروع کردیا۔
نتیجہ یہ کہ مارچ 2014ء میں ہم نے فیس بک پر لکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم کوئی بھی کام رینڈملی نہیں کرتے۔ اسے باقاعدہ سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی سے کرتے ہیں۔ چنانچہ وحید اور سبوخ کی مدد سے کوئی درجن بھر ایسے اکاؤنٹس کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجی جو فیس بک پر روزانہ کی بنیاد پر لکھ رہے تھے۔ ان کے کام کا بھی بغور مشاہدہ کیا اور ان کی پوسٹوں پر آنے والے کمنٹس بھی کامل یکسوئی کے ساتھ دیکھے۔
ان رائٹرز میں سے کچھ تو صحافی تھے، اور کچھ مذہبی موضوعات پر طبع آزمائی کرنے والے۔ مگر ہماری توجہ سب سے زیادہ کمنٹس کرنے والوں نے کھینچی۔ یہ کمنٹس دیکھ کر ہمیں قرون وسطی کے وہ مسخرے یاد آگئے جو دو باشعور لوگوں کی گفتگو میں کسی ایک کے جانبدار ہوکر محض غل غپاڑہ کیا کرتے تھے۔
کمنٹس کرنے والوں میں بعض تو مثبت اپروچ بھی رکھتے تھے مگر اکثریت کا معاملہ افسوسناک حد تک نیگیٹو تھا۔ چنانچہ اپنی حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے ہم نے پہلا فیصلہ ہی یہ کرلیا کہ ان نیگیٹو کمنٹس کرنے والوں کے تو ہم پہلے چودہ طبق روشن کیا کریں گے اور اس کے بعد لات مار کر اپنی فرینڈ لسٹ سے باہر پھینکیں گے۔ چنانچہ فیس بک کے بلاک بٹن کا ہم نے ایسا بے دریغ استعمال کیا گویا “بلاکو خان” ہی بن گئے۔
ایک بے حد شرمندہ کردینے والی بات ہم نے یہ نوٹ کی کمنٹس میں بیہودگی مچانے والوں کی اکثریت مدرسے والوں کی ہے۔ اور ان میں سے گویا ہر ایک بزعم خود ساشے پیک امام مجتہد تھا۔ یہ فتوے بھی لگاتے اور گالم گلوچ بھی کرتے۔ حد یہ تھی ان کے غنڈوں کی طرح گروہ تھے جو غول کی صورت ایسے رائٹرز پر حملہ آور ہوتے جو مذہبی موضوعات پر لکھا کرتے تھے۔ بالخصوص جاوید احمد غامدی کے پیروکار ان کا خاص ہدف تھے۔
سو لکھنے کے حوالے سے دو بڑے فیصلے کئے۔ پہلا یہ کہ ہم ان ساشے پیک مجتہدین کا تقدس ایسا خاک میں ملائیں گے کہ ان کے لئے طے کرنا مشکل ہوجائے کہ خاک کونسی ہے اور تقدس کونسا ؟ دوسری چیز یہ کہ ہم نوجوانوں کو کمنٹس بار میں بیہودگیاں مچانے جیسی منفی سرگرمیوں سے ہٹا کر تحاریر لکھنے جیسے مثبت کام پر لگائیں گے۔
ہم چونکہ مدرسے کے ہی پڑھے ہوئے ہیں سو اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب مدارس کے لوگوں کے مزاج کے خلاف بات کی جائے تو یہ سب سے پہلے بات کرنے والے کی کریکٹر اساسنیشن ہی کرتے ہیں۔ مثلا یہ کہ یہ تو پڑھنے میں بہت نالائق تھا، یا یہ کہ یہ تو نمازیں نہیں پڑھتا تھا وغیرہ وغیرہ
نفسیات کی معمولی سی شد بد کے نتیجے میں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ کا کوئی بھی عیب صرف اس صورت میں ہی عیب سمجھا جاتا ہے جب کوئی اور اسے رپورٹ کرے۔ مثلائی کوئی اور کہدے
“رعایت اللہ فاروقی تو صرف جمعہ کی نماز پڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ پورا ہفتہ مسجد میں نظر نہیں آتا”
تو سننے والے کی آنکھیں حیرت سے جیسے پھٹ سی جائیں گی اور زبان سے کہے گا
“استغفراللہ ، استغفراللہ دکھتا تو یہ بدبخت بڑا نیک ہے”
اور پھر چار دوسروں کو بھی خبر دے گا کہ وہ بدبخت تو صرف جمعہ ہی پڑھتا ہے۔لیکن اگر آپ خود کہہ دیں کہ بھئی ہم سے نمازوں کی پابندی نہیں ہو پاتی۔ مگر جمعہ کی پابندی ہے۔ تو کسی کو کوئی ٹینشن نہ ہوگی۔سو ہم نے لکھنے کا آغاز ہی اپنی اس داستان سے کیا جو اول تا آخر ہماری زمانہ طالب علمی کی دو سرگرمیوں پر مشتمل تھی۔ ایک رج کر فلمیں دیکھنا۔ اور دوسرا دن رات ناولز پڑھنا۔ اور یہ دونوں حرکتیں مدارس میں گناہ کبیرہ سے بھی بڑے درجے کے جرائم ہیں۔ اور اس کا دائرہ پھیلاتے پھیلاتے صورت بالکل یہ کردی
میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہے میرا جوش جنوں میری قبا چاک
ان ساشے پیک مجتہدین کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ پرلے درجے کے اکابر پرست ہوتے ہیں۔ اور ان کے اکابر کی کوئی رائے اگر قرآن و حدیث سے بھی متصادم ہو تو یہ قرآن کو بھی اپنے ان بتوں کے لئے ترک کرتے ملیں گے۔سو اپنی قبا چاک کرنے کے بعد ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام والی حکمت عملی ہی اختیار کرلی اور ان کے بتوں کو توڑنا شروع کردیا۔ مثلا مفتی تقی عثمانی کے حوالے سے یہ حقیقت بیان کر دینا کہ ان کی زندگی کا طویل ترین مضمون جنرل ضیاء جیسے بدترین آمر کی تعریف و توصیف میں ہے۔
اتنی خوبیاں تو انہوں نے اپنے کسی استاد یا شیخ کی نہیں گنوائیں جتنی جنرل ضیاء کی گنوا رکھی ہیں۔ پھر کچھ ہی روز بعد انہی تقی صاحب کی کسی اور پہلو سے تعریف بھی کر دیتے۔ اس پر ساشے پیک مجتہدین فرماتے کہ بھئی تم تو چند دن قبل ان کی برائی کر رہے تھے ؟ تو عرض کردیتے کہ بھئی مفتی تقی عثمانی کوئی معصوم عن الخطاء تھوڑی ہیں۔ جہاں ان سے غلطی ہوئی ہے وہاں ہم تنقید کریں گے اور جہاں کوئی خوبی نظر آئے گی وہاں سراہیں گے بھی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتاکہ ساشے پیک مجتہدین میں سے بہت سے ایک نئے زاویے سے سوچنے لگتے۔ چنانچہ اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا 2014ء سے 2017ء تک ہمیں ننگی گالیاں دینے والے سینکڑوں ساشے پیک مجتہد اب ہمیں اپنا استاد مانتے ہیں اور ہم سے محبت والا رشتہ رکھتے ہیں اور یہ اصل فائدہ الگ کہ اب فیس بک پر ان کی سرگرمیاں منفی نہیں رہیں۔
پہلے ہی سال ہم نے دوسرا قدم یہ اٹھایا کہ پہلے دو تین پوسٹیں کیں جن میں یہ بات کہی کہ بھئی یہ کونسا کمال ہے کہ آپ کسی اور رائٹر کے لئے تالیاں پیٹیں اور کمنٹس میں لکھیں “مرشد کمال کردیا” ؟ کمال تو تب ہو جب آپ اپنے لئے تالیاں پٹوائیں۔ اور یہ تب ہی ہوگا جب آپ خود لکھنا شروع کریں گے۔
ہمیں یاد ہے بیشتر حیرت سے چونکے تھے جیسے یقین نہ آرہا ہو کہ وہ بھی لکھ سکتے ہیں۔ سو ہم نے انہیں سمجھایا کہ دیگر تخلیقی صلاحتیوں کی طرح تحریر کی صلاحیت بھی انسان ماں کے پیٹ سے لاتا ہے، استاد تو بس اس صلاحیت کو پالش کرتا ہے۔ اور پھر ہم نے ایک پوری سیریز شروع کردی جس کا عنوان ہوتا “نوجوان اہل قلم کے لئے”
اللہ سبحانہ و تعالی نے بڑا کرم کیا کہ نوجوان ایک بڑی تعداد میں اس طرف متوجہ ہوئےجس کے نتیجے میں کوئی ڈیڑھ دو درجن لوگوں کے اندر چھپا رائٹر سامنے آگیا۔ اور فیس بک کا جیسے ماحول ہی تبدیل ہوگیا۔ ہمیں یاد ہے ظفر نامی ایک رائٹر نے سال بعد ہم پر نام لئے بغیر اس جرم میں تنقید بھی کی کہ ہم نے ٹکے ٹکے کے لوگوں کو رائٹر بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ مگر ہم نے پروا نہ کی۔
ہماری حکمت عملی میں ایک اہم چیز یہ بھی شامل رہی کہ چونکہ بڑے مکاتب فکر بالخصوص ہمارا اپنا دیوبندی مکتب فکر غامدی مکتبہ فکر کو بری طرح رگڑ رہا تھا۔ سو ہم اس مکتب فکر کے ساتھ جم کر کھڑے ہوگئے۔ اور اپنے مکتب فکر سے بس ایک بات پورے تواتر سے کہتے چلے گئے کہ بھئی آپ کو علمی اختلاف کرنا ہے تو بصد شوق کیجئے۔
مگر یہ فتوے بازیاں اور گالم گلوچ بند کیجئے۔ مارچ 2017ء تک ہم ان کا دفاع کرتے رہے۔ اس کے نتیجے میں ایک عجیب چیز یہ ہوگئی کہ خود غامدی مکتب فکر کو بھی یہ غلط فہمی لاحق ہوگئی کہ ہم خدا نخواستہ غامدی صاحب کی تعلیمات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اور ہمارے اپنے مکتب فکر کا خیال بھی یہ بننے لگا کہ ہم کیمپ بدل چکے۔ مگر ہم نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔
جس چیز نے ہمیں بری طرح مایوس کیا وہ یہ تھی کہ جس غلطی پر ہم اپنے مکتب فکر کو ٹوک رہے تھے عین وہی چلن غامدی صاحب کے پرستاروں نے بھی اختیار کرلیا۔ بالخصوص ابوظہبی اور گجرانوالہ کے دو حضرات تو اس معاملے میں صحابہ کرام کی کریکٹر اساسنیشن تک چلے گئے۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب ہم ان سے مکمل طور پر الگ ہوگئے۔ اور وہ بھی اس حد تک کہ انہیں سوشل میڈیا کیا فون تک پر بلاک کرکے مکمل قطع تعلق کرلیا۔
غامدی مکتب فکر سے متعلق ہم نے 2018ء میں پیشنگوئی کردی تھی کہ یہ وارآن ٹیریر کے دوران امریکہ کا اپنی معاونت کے لئے لانچ کردہ پروجیکٹ ہے۔ جس پر ساری سرمایہ کاری باہر سے ہو رہی ہے۔ چھٹی والے دن ہر بڑے چینل پر آن ایئر ہونے والے غامدی صاحب کے پروگراموں کے لئے ایک بڑی سرمایہ کاری درکار ہے جو کسی بھی مکتب فکر کے چندوں کے بس کی بات ہی نہیں۔ ان پروگراموں میں کوئی اشتہار بھی نہیں ہوتے اور ٹی وی چینلز کا تو یہ حال ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے اجلاس کی کوریج کر رہے ہوں اور اجلاس کے دوران اذان شروع ہوجائے تو یہ وہ اذان تک نہیں دکھاتے۔
فورا اشتہارات کی مدد سے کمائی شروع کر دیتے ہیں۔ اور دوبارہ اجلاس کی طرف تب جاتے ہیں جب اذان ختم ہوجائے۔ جب غامدی صاحب کے پروگراموں میں اشتہار بھی نہیں ہوتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ مکمل طور پر پیڈ پروگرام ہیں۔ لھذا لکھ رکھئے کہ جب وار آن ٹیرر ختم ہوگی تو یہ پروجیکٹ بھی بند ہوجائے گا۔ اور غامدی صاحب کے پروگرام سکرین سے آؤٹ ہوجائیں گے۔ بحمداللہ یہی ہوا۔ “اصلی اسلام” والا یہ پروجیکٹ امریکی انخلاء کے ساتھ ہی فارغ ہوچکا۔
اب ہم ایک نئے ہدف کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ ابھی باقاعدہ فیصلہ نہیں کیا۔ لیکن اس چیز نے ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کرالی ہے کہ دین کی نسبت سے فیس بک پر نام نہاد “اہل علم” کا چلن یہ ہے کہ دعوت دین یا تعلیم دین کو تو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ساری خدمتِ دین “دندان شکنی” کے لئے وقف کر رکھی ہے۔
کوئی غامدیوں کی دندان شکنی میں مشغول ہے تو کوئی دیوبندیوں کی۔ کسی کا ہدف بریلویوں کی بتیسی ہے تو کسی کی نظر اہلحدیثوں کے دانتوں پر۔ اور یہ عمل اس قدر مرغوب اس لئے ہے کہ فی زمانہ شوبازی کا سب سے بدترین ذریعہ علم ہی ہے۔کپڑوں کی شو، گاڑی کی شو، سماجی حیثیت کی شو “علمی شوبازی” کے آگے ہیچ ہیں۔
آپ غامدی صاحب کو ہی لے لیجئے۔ ان کے سب سے زیادہ وائرل کلپ بھی وہی ہیں جن میں متقدمین فقہاء کی دندان شکنی کا شوق پورا کیا گیا ہے۔ یہی ان کے مخالفین کا بھی حال ہے۔ شو بازی کی اس گرم بازاری میں عام مسلمان یہ سوچ سوچ کر دین سے ہی بدظن ہو رہا ہے کہ ہمیں دین سکھا کوئی نہیں رہا۔ سب مغلق قسم کی ایسی لغو گفتگو میں پڑے ہیں جو صدیوں سے مسلمانوں میں فرقہ بندی کا سامان ہے۔
فیس بک پر موجود معروف لوگوں میں سے ایک مفتی زاہد صاحب ہی ہیں جن کی وال پر آپ کو تعلیم دین اور دعوت دین بھی ملے گی۔ باقی سب کا یہ حال ہے کہ روز کسی نزاعی مسئلے کو اٹھائیں گے اور اس پر دندان شکنی کرکے داد کے طالب ہوجائیں گے۔ ان نام نہاد اہل علم میں ایسے مسخرے بھی شامل ہیں جنہیں خدا کے انکار کا مسئلہ تو پریشان نہیں کرتا لیکن اگر آپ نے ابن عربی یا کسی اور بت کا انکار کردیا تو ہاتھ دھو کر آپ کے پیچھے یوں پڑ جائیں گے جیسے آپ نے دین کے کسی ستون کو چھیڑ دیا ہو۔ کیا یہ بزرگ بھی ایمانیات کا حصہ ہیں ؟ کیا ان پر بھی ایمان لانا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا تقاضا ہے ؟
جہالت اس درجے کو پہنچی ہوئی ہے کہ ان نام نہاد اہل علم کو یہی نہیں معلوم کہ قرآن کی حفاظت اپنے ذمہ لے کر اللہ نے دراصل دین اسلام کو ہی قیامت تک کے لئے محفوظ کر لیا ہے۔ چنانچہ جسے دیکھو “اسلام خطرے میں ہے” کا بینر اٹھا کر فتنہ پروری کا نیا باب کھول لیتا ہے۔ہم سوچ رہے ہیں کہ اب ان فیس بکی اہل علم کو کان سے پکڑ کر دعوت دین اور تعلیم دین کے کام کی جانب لانے کی کوشش کریں اور لوگوں کو سکھائیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہم سے کیا تقاضے ہیں۔
بس ان تقاضوں کی تعلیم ہی تو دعوت دین ہے۔ بخدا ہمیں ایک فیصد بھی یقین نہیں کہ ہم یہ مقصد حاصل کر پائیں گے۔ کیونکہ فراعنہ مصر کا تکبر توڑنا تو ممکن ہے لیکن فراعنہ علم کا غرور خاک آلود کرنا انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔ ہم بس اپنے رب کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میرے رب ہم ان میں سے نہیں۔ ہم دندان شکنی کے فتنے سے آپ کی پناہ چاہتے ہیں !