درآمدی خام مال پر ٹیکسوں کی بھرمار،کپڑے کی صنعت تباہی کے دہانے پرہے، خاور نورانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

درآمدی خام مال پر ٹیکسوں کی بھرمار،کپڑے کی صنعت تباہی کے دہانے پرہے، خاور نورانی
درآمدی خام مال پر ٹیکسوں کی بھرمار،کپڑے کی صنعت تباہی کے دہانے پرہے، خاور نورانی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: ایف پی سی سی آئی کی قائمہ کمیٹی برائے درآمدات کے چیئرمین، یارن ٹریڈ کمیٹی کے کنوینراور سابق چیئرمین پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن (پائما) خاور نورانی نے وزیراعظم عمران خان سے کپڑا بنانے والی صنعتوں کو تباہی سے بچانے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے پولیسٹر اسپن یارن پر 2فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذکا فیصلہ واپس لینے کی درخواست کی ہے اور خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کورونا سے پیدا ہونی والے سنگین معاشی بحرانوں سے نمٹنے میں مدد فراہم نہ کی گئی تو کپڑے کی صنعت تباہ ہوجائے گی اور کپڑے کے تاجروصنعتکار دیوالیہ ہوجائیں گے۔

خاور نورانی نے وزیراعظم سے اپیل میں کہا کہ کپڑا بنانے کی صنعتوں کو بلارکاوٹ پیداواری سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے درآمدی پولیسٹر اسپن یارن (5509-2100، 5509-5100)پر انحصار کرنا پڑتا ہے کیونکہ مقامی مینوفیکچررز صنعتوں کو طلب کے مطابق خام مال فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

آج بھی مقامی صنعت کھپت کا تقریباً30سے35فیصد یارن بناتی ہے جبکہ 65سے70فیصد مال درآمد ہوتا ہے اس کے باوجود یارن کے مقامی مینوفیکچررز نے اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے او ر حکومتی نگرانی نہ ہونے کا بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے یارن کے من مانے نرخ مقرر کر کے خوب منافع کمار ہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ حکومت نے یارن کے مقامی مینوفیکچرر ز کو فوائدپہنچانے کے لیے پوری کپڑے کی صنعت کوداؤ پر لگا دیا ہے کیونکہ درآمدی خام پر ٹیکسوں کی بھرمار کا مقامی مینوفیکچررز بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

خام مال پربے تحاشا ٹیکسوں کی وجہ سے کپڑے کی مقامی صنعت کو بہت زیادہ نقصانات کا سامنا ہے حالانکہ کرونا کی وجہ سے کپڑے کی صنعت پہلے ہی شدید بحران کا شکار ہے اور اب پولیسٹر اسپن یارن پر 2فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہونے کی صورت میں یہ صنعت مکمل طور پرتباہ ہو جائے گی۔

خاور نورانی نے وزیراعظم عمران خان سے اپیل کی کہ پولیسٹر اسپن یارن پر 2فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد نہ کی جائے اورکپڑا بنانے کی مقامی صنعت کو ڈوبنے سے بچایا جائے بصورت دیگر زائد ٹیکسوں اور اس کے نتیجے میں پیداواری لاگت حد سے زیادہ بڑھنے سے کپڑے کی فیکٹریاں بند ہونے کی صورت میں ہزاروں ورکرز بے روزگار ہوجائیں گے۔

Related Posts