طالبان قیدیوں کی رہائی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کئی مہینوں کی سیاسی الجھنوں اور دونوں فریقوں کے مابین بد ترین دشمنی کے بعد بالآخر افغانستان میں دو دہائیوں کی جنگ اپنے اختتام کو نظر آرہی ہے، طالبان اب افغانستان کی حکومت سے مذاکرات کے لئے تیار ہوگئے ہیں۔ طالبان قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں رکاوٹ دور کردی گئی ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ کچھ ہی دنوں میں مذاکرات شروع ہوجائیں گے۔

افغانستان میں لویہ جرگہ کے نام سے عمائدین کی ایک عظیم الشان اسمبلی بلائیگئی تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ دہشت گردی کے حملوں میں ملوث 400 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہئے یا نہیں؟۔ افغان حکومت اب دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کرے گی۔ اب جنگ زدہ ملک افغانستان میں امن کے لئے ایک اور قدم اٹھایا جا رہا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات کا عمل کتنا کامیاب ہوتا ہے۔

طالبان قیدیوں کی آخری کھیپ کی رہائی کے بارے میں سن کر عسکریت پسند گروہ کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ میں غم و غصہ پھیل گیا ہے۔ افغان کونسل کا اجلاس قیدیوں کی رہائی کے لئے ایک اہم فیصلہ سمجھا گیا تھا اس کے باوجود امن عمل کو آگے بڑھنے کے لئے درکار رکاوٹوں کے باوجود یہ عمل مارچ میں ختم ہونا تھا لیکن اختلاف رائے کی وجہ سے پانچ ماہ کے لئے تاخیر کا شکار ہوا۔

لویہ جرگہ میں متاثرین کے اہل خانہ سے درخواست کی گئی تھی کہ ملک میں امن و امان کی خاطر طالبان کو معاف کردیں، کیونکہ پچھلی دہائی میں ایک لاکھ سے زیادہ افغان شہری اپنی جانوں سے ہاتھ بیٹھے ہیں،جن میں صرف پچھلے سال مرنے والے 10,000 افراد بھی شامل ہیں۔ پاکستان نے قیدیوں کو رہا کرنے کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے کیونکہ اس نے افغانستان کے امن عمل کو بہت زیادہ تقویت ملے گی اور یہ عمل افغانستان میں امن کے لئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

افغان حکومت پراس وقت دباؤ ہے، 3 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں امن عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کی جستجو میں ہے، صدر ٹرمپ نے نومبر سے قبل امریکی فوجیوں کی تعداد 5 ہزار سے کم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے،افغان صدر اشرف غنی چاہتے ہیں کہ طالبان مذاکرات سے پہلے مکمل جنگ بندی کریں اوردہشتگردی سے باز آجائیں لیکن اس کا امکان نظر نہیں آتا،اگر ایسا ہوجاتا ہیتوپہلی بار دونوں فریق ایک ساتھ بیٹھ کر ملک کے مستقبل کے لئے لائحہ عمل طے کریں گے۔

یہ خوشی کی بات ہے کہ افغانستان میں امن کی راہ ہموار ہورہی ہے، افغان شہریوں کے لئے سخت جنگ کے بعد آگے بڑھنا تکلیف دہ عمل ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے لئے کئی سال عدم اعتماد کے بعد بات چیت ہونا بھی غیر معمولی بات ہے۔ دیکھا جائے تو یہ قربانیاں ملک میں دیرپا امن کے لئے ضروری ہیں۔
 

Related Posts