طالبان کا غلبہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

15 اگست کی صبح کابل شہر میں دو نوجوان لڑکوں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا بلکہ عجلت میں وہ ایک دوسرے کا نام ، خاندان اور قبیلہ نہیں جانتے تھے ، پھر بھی ان کا ہدف ایک ہی تھا جتنی جلدی ممکن ہو حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک پہنچنا، کیونکہ 90 ء کی دہائی کے بعد ایک مرتبہ طالبان کابل شہر کے دروازے پر پہنچ گئے ہیں۔
وہی شہر جہاں 179 سال پہلے برطانیہ کی فوجوں کا خاتمہ کیا گیا تھا، 32 سال پہلے ناقابل شکست ریڈ آرمی کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کردیا۔ اب طاقتور امریکی/ نیٹو افواج 20 سال بعد عاجز ہو گئیں۔ ایک چیز واضح ہے کہ شہر اور ملک غیر ملکی حکمرانوں کو قبول نہیں کرتے۔ اسی شہر میں ایک طاقتور نظریے کے حامل طالبان نے غیر ملکی افواج کے انخلاء سے حوصلہ افزائی پاکر کئی دہائیوں کی گوریلا جنگ سے سختی سے لڑکر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے تیار تھے۔ جلد ہی وہ دو لڑکے اسی ہوائی اڈے پر پہنچ گئے، پتا چلا کہ آدھا شہر ملک سے فرار ہونے کے لیے موجود ہے۔
کیوں؟ دو الفاظ: خوف اور امید۔ افغان شہری اپنے خواب چکنا چور ہونے کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مغرب خاص طور پر امریکہ جو اتحادیوں کو پریشان چھوڑنے کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے، اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ ہوائی اڈے پر امریکہ اپنے شہریوں کو نکالنے میں مصروف تھا ۔
سہانے خواب آنکھوں میں سجائے بیرون ملک جانے کے خواہشمند افغانیوں نے ایئرپورٹ پر ہلہ بول دیا، لیکن امریکہ نے انہیں ساتھ لیجانے کے بجائے ان پر گولیاں چلا دیں، کچھ لوگ مر گئے اور ہر طرف افراتفری تھی۔
اس صورتحال کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان دونوں لڑکوں نے اپنے آپ کو ایسی جگہ پایا جہاں وہ کسی کی توقع کیے بغیر چھپ سکتے تھے، اور انہوں نے ہوائی جہاز کے پہیوں میں پناہ لی، تاہم قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، جلد ہی وہ دونوں لڑکے اڑان بھرتے جہاز سے زمین پر آگرے۔ ان میں سے ایک افغان قومی یوتھ فٹ بال ٹیم کا کھلاڑی تھا۔ یہ صرف دو نوجوان لڑکوں کی موت نہیں تھی بلکہ ان کے ساتھ ان کے خواب، روشن مستقبل کے امکانات اور حقوق کے محافظ کی مغرب کی شرمناک چال کی عکاسی تھی۔
بہت سے ناقدین الزام تراشی کررہے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنے دیرینہ مطلوبہ مقصد کے حصول کے لیے افغانستان میں پاکستان کی پراکسی وار جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم طالبان کو محض اے کے 47 کے ساتھ ہلکے جنگجوؤں کے طور پر پیش کرنا نامناسب ہے، بہرحال اشرف غنی کی قیادت میں نئی دہلی کی حمایت یافتہ کابل حکومت کا تختہ الٹنے، حکمت عملی کے لحاظ سے پاکستان کے لیے ایک فتح تھی جس نے بھارت کو اپنے زخم چاٹنے کے لیے چھوڑ دیا۔ افغانستان میں طالبان کے غلبے کے بعد کابل میں طالبان کے ساتھ پاکستان کو گھیرنے کے لیے را اور این ڈی ایس کے گٹھ جوڑ کے ذریعے بھارت کی “دہری پالیسی” اب ناکام ہو جائے گی۔
پاکستان نے اپنے زبردست اثر و رسوخ کے ساتھ ماضی میں بار بار افغان طالبان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کر دیں، تاہم افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کو لگام دینے کی حالیہ یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان کی سول ملٹری قیادت شکوک و شبہات کا شکار ہے۔
مثال کے طور پر پی ٹی آئی حکومت کے ایک رکن نے تسلیم کیا ہے کہ طالبان کی جیت پاکستان کے لیے سیکورٹی رسک ہے۔ اس کے علاوہ تذکرہ نہیں۔ افغان طالبان کی طرف سے پاکستان میں موجود دیگر جہادی گروپوں کے بڑھنے کے خطرے کی وجہ سے سیکورٹی حلقوں میں یہ خوف ہر جگہ ہےکہ افغان طالبان کی وجہ سے ہمارے جہادیوں کو بھی حوصلہ ملے گا۔ وہ کہیں گے کہ اگر امریکہ کو شکست دی جا سکتی ہے تو پاکستانی فوج ہمارا کیا بگاڑ سکتی ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایک سابق عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ طالبان اسٹریٹجک اثاثہ بننے کے بجائے پاکستان کے لیے اسٹریٹجک خطرہ بن جائیں گے۔ مثال کے طور پر 90 کی دہائی میں لشکر جھنگوی کے سابق سربراہ ریاض بسرا جس پر ریاست پاکستان کے خلاف متعدد حملوں میں فرد جرم عائد کی گئی تھی ،اس کو پناہ دی گئی تھی اور بعد میں افغان طالبان نے پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا، اس کے علاوہ ایک سابق سینئر سیکورٹی عہدیدار نے کہا ہے کہ افغانستان کے بڑے حصوں میں طالبان کے دیوبندی اسلام پسند ویژن کا نفاذ پاکستانی دیوبندی عسکریت پسندوں کو فروغ دے رہا ہے۔
اسی طرح ایک سابق سینئر پاکستانی سفارت کار نے انکشاف کیاکہ پاکستانی فوج نے کوشش کی ہے لیکن وہ طالبان قیادت کو اپنے آپ کو پاکستانی طالبان سے دور کرنے پر قائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یہاں تک کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور اور انٹیلی جنس کے سربراہ فیض حمید نے قانون سازوں کو بریفنگ دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ افغان اور پاکستانی طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغان طالبان نے ڈیورنڈ لائن کو دو جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ مزید وہ خدشات جنہوں نے اسلام آباد راولپنڈی کو گھیر لیا ہے وہ پناہ گزینوں کا بڑے پیمانے پر ہجرت کا تنازعہ ہے۔ پاکستان پہلے ہی 3 ملین سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے جو دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آبادی کے لحاظ سے ترکی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اس وقت مزید 7 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی سرحدوں تک پہنچنے کی توقع تھی تاہم اسے روک دیا گیا ہے، لیکن افغانستان کی غیر مستحکم صورت حال پناہ گزینوں کی ایک اور لہر کو اپنے مشرقی پڑوسی کے دروازوں تک پہنچا رہی ہے۔
افغان طالبان قیادت اور پاکستان کے مابین تعلقات کو ’’ رولر کوسٹر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ افغان طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور نے ڈرون حملوں کی صورت میں ہونے والی ہلاکتوں کے فوری بعد پاکستان سے اپنے خوف کا اظہار کیا تھا۔
افغان طالبان کے ایک اور شریک بانی کو پاکستان نے جیل میں ڈالا تھا، صرف دوحہ مذاکرات کے لیے رہا کیا گیا۔ اس کا نام ملا غنی برادر ہے جو افغانستان کے اگلے متوقع صدر ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے امرکی دباؤ پر افغان طالبان کی قیادت کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا تھا۔ 2014 میں تعلقات اتنے نچلے درجے پر چلے گئے تھے جب بھی کوئی طالبان جنگجو ملتا تھا وہ پاکستانی فوج پر حملے کے لیے تیا رہتا تھا۔ (جاری ہے)

Related Posts