طالبان، خواتین کو عمومی زندگی سے محروم کر رہے ہیں، اقوام متحدہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

طالبان، خواتین کو عمومی زندگی سے محروم کر رہے ہیں، اقوام متحدہ
طالبان، خواتین کو عمومی زندگی سے محروم کر رہے ہیں، اقوام متحدہ

نیویارک: اقوام متحدہ نے کہاہے کہ افغانستان میں طالبان رہنما خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد اور بڑے پیمانے پر صنفی تعصب پر مبنی ادارہ سازی کا نظام تشکیل دے رہے ہیں۔

بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق خصوصی معیاری گروپ کی جانب سے رپورٹ جاری کی گئی، یہ اقوام متحدہ کے نظام میں انسانی حقوق کے ماہرین کی ایک بڑی تنظیم ہے۔گروپ کی سرکاری سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ٹوئٹ میں ماہرین نے دعویٰ کیا کہ طالبان رہنما صنفی تعصب اور تشدد پت مبنی نظام کے تحت خواتین اور لڑکیوں کو عام زندگی سے دور کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری خواتین کی ضروریات کے در عمل میں انسانی امداد کے لیے لازمی اقدامات کرے۔ماہرین نے افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد متعدد مواقعوں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے اور خبردار کیا ہے کہ حالات پر فوری قابو پانی کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ صنفی جانبداری اور نقصاندہ طریقہ کار پر مبنی یہ پالیسیاں خواتین اور لڑکیوں کے لیے سزا ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں منظم کوششوں کے ذریعے خواتین کو سماجی، اقتصادی اور معاشی شعبوں سے نکالنے پر ہم تشویش کا شکار ہیں۔

ماہرین نے خبردار کیا کہ نسلی، مذہبی یا ہزارہ، تاجک اور ہندں سمیت دیگر لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے معاملات میں یہ تشویش مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ ان کا مختلف ہونا افغانستان میں ان کے لیے مزید خطرات کا سبب بن ہے۔

انہوں یہ مشاہدہ بھی کیا اس عمل سے خواتین اور لڑکیوں کے استحصال کا خطرہ پیدا ہوگا اور انہیں کم عمری میں جبری شادی، جنسی استحصال اور جبری مشقت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

رپورٹ میں دعوی کیا گیا کہ یہ برطرفی اور امتیازی پالیسیز کا نفاذ خواتین کو ملازمت سے روکنے، عوامی مقامات پر مرد کے ساتھ جانے، خواتین کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میں اکیلے سفر ممنوع قرار دینے اور اس کے ساتھ خواتین اور لڑکیوں کے لیے ڈریس کوڈ کے سختی سے نفاذ جیسیاقدامات کی لہر کے ذریعے کی جارہا ہے۔

ماہرین نے کہا کہ’مزید یہ خواتین کی اظہار، انجمن، عوامی اور سیاسی امور میں خواتین کی آزادی کو محدود کردیا گیا ہے، یہ پالیسیز خواتین کے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہوئے انہیں مزید غربت کی جانب بڑھنے پر مجبور کر رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھاکہ اس عمل سے خاندان کی خواتین سربراہان شدید متاثر ہوئی ہیں، ملک میں انسانی بحران کے نتیجے میں ان کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ماہرین نے تنبیہ کی کہ خواتین اور لڑکیوں کے ثانوی تعلیم کے حق سے مسلسل انکار خاص بور پر تشویش کا باعث ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کی پابندی کیخلاف جدوجہدمیں جان تقریباکھوچکی تھی،ملالہ یوسف زئی

رپورٹ میں ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کی پابندیاں خواتین اور لڑکیوں کی اکثریت کو رسوا کرتی ہیں، جنہیں ساتویں جماعت سے 12 ویں جماعت میں تعلیم حاصل کرنی چاہیے انہیں صنفی تعصب کی بنیاد پر اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔

Related Posts