ہنر کی چیریٹی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جسے گورا چیریٹی کہتا ہے وہ اسلام میں صدقہ کہلاتا ہے۔ ایک ہی کام ہے، نام کے سوا کوئی فرق نہیں۔ اور نام کا یہ فرق بھی قابل فہم ہے۔ دو الگ زبانوں والی قومیں ہیں سو اپنی اپنی زبان کا لفظ استعمال کر رہی ہیں۔

پیسے کی چیریٹی تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ کیسے ہوتی ہے لیکن ایک چیز ہے ہنر اور پیشے کی چیریٹی۔ یہ پیسے کی چیریٹی سے بڑھ کر ثابت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ پیسے کی چیریٹی کسی ضرورتمند کی وقتی ضرورت پوری کرسکتی ہے جبکہ ہنر اور پیشے کی چیریٹی ترقی کی راہ پر ڈال کر اسے “محتاج” کی کٹیگری سے باہر نکال سکتی ہے۔ سو اندازہ لگا لیجئے کہ یہ کتنی غیر معمولی چیریٹی ہوسکتی ہے۔ اور اس کا اجر کتنا بڑا ہوسکتا ہے۔

ہنر اور پیشے کی چیریٹی کیسے ہوسکتی ہے اس کی دو مثالیں عرض کردیتے ہیں۔ فرض کیجئے آپ کا اسٹیشنری کا بزنس ہے۔ شہر کی بڑی دکانوں میں سے ایک آپ کی ہی ہے۔ بلکہ اس کی کئی برانچز ہیں۔ آپ کے راستے میں اسٹیشنری کی ہی ایک دکان پڑتی ہے۔ آتے جاتے گاڑی کی کھڑکی سے اس پر آپ کی نظر پڑتی ہے۔ دکان کی حالت بتا رہی ہے کہ یہ ٹھیک نہیں چل رہی۔ چلانے والا بس چلا رہا ہے کچھ خاص کما نہیں رہا۔ اور آپ اپنے تجربے سے جانتے ہیں کہ اس فیلڈ میں ناکامی کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ لوگ پیشوں کے رمز جانتے نہیں بس کود جاتے ہیں ان میں۔ انہیں لگتا ہے مال دکان پر سجا لیا جائے تو کسٹمر تو آئے گا ہی آئے گا۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ کسٹمر کی بھی ایک نفسیات ہوتی ہے۔ وہ کچھ چیزیں دیکھ پرکھ کر ہی فیصلہ کرتا ہے کہ اس دکان میں قدم رکھنا ہے یا نہیں۔

سو آپ اس دکاندار ملئے۔ اس کا ہاتھ تھامئے۔ اور اسے بتایئے کہ آپ اس شہر میں اس بزنس کا ایک بڑا نام ہیں۔ اور آپ اس کی “ماہرانہ مدد” کرنا چاہتے ہیں۔ اسے چھٹی والے دن بلا لیجئے اور بٹھا کر تبادلہ خیالات کر لیجئے۔ پہلے اس سے جانیئے کہ وہ یہ کام کر کس طرح رہا ہے۔ یوں خاص اس شخص کی حکمت عملی کی کمی کوتاہی آپ کو سمجھ آجائے گی۔ سو اس کے مطابق اسے گائڈ کرنا شروع کردیجئے۔ بلکہ اگر ہوسکے تو اسے کہئے کہ یہ ایک دو ماہ تک روز دو گھنٹے آپ کی شاپ پر بطور سیلزمین کام کرے۔ بطاہر سیلزمین رہے مگر بغور دیکھے کہ وہاں کام کس طرح ہورہا ہے۔ فروخت ہی نہیں خرید بھی کیسے ہو رہی ہے ؟َ کسی بھی کاروبار کی ناکامی کی سب سے خطرناک اور عام وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کا باقاعدگی سے حساب نہیں رکھا جاتا۔ یہ سو فیصد طے ہے کہ اگر حساب باقاعدگی سے نہ رکھا گیا تو کار و بار نہیں چلے گا۔چنانچہ سب سے پہلے یہی معلوم کیجئے کہ کہیں یہ غلطی تو نہیں ہورہی ؟

ویٹی کن کے طرز پر دنیا کی پہلی اسلامی ریاست قائم کرنے کا اعلان، یہ کہاں بنے گی؟

بزنس میں دوسرے نمبر کی خطرناک غلطی یہ ہوتی ہے کہ آپ نے دیکھا کہ کوئٹہ وال چائے خانے بہت زبردست چلتے ہیں۔ سو آپ نے بھی شاپ اور سامان خرید لیا۔ کوئٹہ والوں کی ایک ٹیم بھرتی کرلی اور ان سے کہا چلو جی سٹارٹ کرو کوئٹہ عجوہ ہوٹل۔ اور خیال آپ کا یہ ہے کہ یہ ایک دو ماہ میں دوڑنے لگے گا۔یا آپ نے دیکھا کہ بریانی اور حلیم بہت بکتی ہے۔ سو فرض کرلیا کہ آپ بھی اگر اس فیلڈ میں قدم رکھ دیں تو بس گاہکوں کی قطاریں لگ جائیں گی۔ وہ سو میں سے ایک دو ہی ہوتے ہیں جو پہلے دن سے ہی ٹیک آف کر جاتے ہیں۔ کاروبار کا اصول یہ ہے کہ شروع کرنے سے قبل ہی آپ نے تین سال کی سکیم بنا کر رکھنی ہے۔ کار وبار “ساکھ” پر چلتا ہے۔ اور ساکھ بننے میں اتنا عرصہ لگ ہی جاتا ہے۔ “فرنچائز سسٹم” کیوں مقبول ہوا ؟ کیونکہ ان کی ساکھ ہوتی ہے سو فرنچائز خریدنے والا محض نام تھوڑی خرید رہا ہوتا ہے۔ فی الحقیقت وہ “ساکھ” خرید رہا ہوتا ہے۔

دوسری مثال یہ ہے کہ آپ رائٹر ہیں اور آپ نے ایک نوجوان رائٹر کو دیکھا کہ صلاحیت تو رکھتا ہے مگر کچھ سنگین غلطیاں کر رہا ہے جس کی وجہ سے یہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ سو آپ اسے پاس بلایئے اور اپنے تجربات کی روشنی میں اسے سمجھایئے کہ اس فیلڈ میں اسے کیا نہیں کرنا اور کیا کرنا ہے۔ اور جو کرنا ہے وہ کیسے کرنا ہے۔ مثلا مدارس سے صحافت یا لکھنے کی فیلڈ میں آنے والوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو مین سٹریم میں قدم جما سکا ہو۔ اور جسے مذہبی حلقے سے باہر والے بھی پڑھتے ہوں۔ لے دے کر ایک ہم ہیں اور دوسرا جانِ عزیز فرنود عالم جو مدرسے سے نکلے اور مین سٹریم میں آئے۔ ہم تو چلئے پرانے بابے ہیں۔ فرنود تو ایک دم تازہ خون ہے۔ پچھلے دس برس میں وہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے ؟ آپ اس کے کے نظریات ایک سائڈ پر رکھ بس یہ غور کیجئے کہ تیکنیک کے لحاظ سے وہ کہاں کھڑا ہے ؟ ہم دونوں سگے بھائی ہیں۔ اور سمتیں ہماری ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔ مگر جو بنیادی ترین چیز ہے وہ ہم میں قدر مشترک کے طور پر موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ ہم مدرسے میں نہیں معاشرے میں کھڑے ہوکر سوچتے ہیں۔

اس کے لئے پہلے ہم نے خود کو معاشرے کا حصہ بنایا ہے۔ اس معاشرے کا کوئی ایک گوشہ ایسا نہیں جس سے ہم آگہی نہ رکھتے ہوں۔ اس کی ہر رگ کو ہم نے پرکھا اور سمجھا ہے۔ چنانچہ ہماری 90 فیصد تحاریر معاشرے کے مسائل سے جڑی ہوتی ہیں۔ بات صرف معاشرے کا حصہ بننے تک نہیں بلکہ آپ کو ان علوم سے فیض پانا ہوتا ہے جنہیں “سماجی علوم” کہتے ہیں۔ یہ ماڈرن ورلڈ کچھ ماڈرن علوم کا ہی نتیجہ ہے۔ ان علوم سے ناواقف رائٹر ماڈرن معاشرت کے مسائل پر کیسے بات کرسکتا ہے ؟ تیسری چیز جس پر ہم سختی سے کار فرما رہتے ہیں وہ ہے معاشرے سے معاشرے کی زبان میں ہی بات کرنا۔

ہمارے مدارس میں جو اردو بولی جاتی ہے وہ بس مدارس میں ہی بولی جاتی ہے۔ باہر کی دنیا کے لئے وہ اچھی خاصی ناقابل فہم زبان ہے۔ چنانچہ مدارس سے نکلنے والا رائٹر یہ بنیادی ترین بات ہی نہیں جانتا کہ ہر زبان کی اپنی ایک لغت ہوتی ہے۔ اردو الفاظ وہی کہلائیں گے جو اردو لغت کا حصہ ہوں۔ آپ من چاہے عربی و فارسی الفاظ اردو تحریر میں نہیں ٹھونس سکتے۔ ایسا کرنا وہی مہلک غلطی ہوگی جو کالج سے جڑے لوگ یوں کر رہے ہیں کہ دو چار جملے بھی ایک دو انگریزی لفظوں کی شمولیت کے بغیر نہیں بول سکتے۔ لغات میں بیشتر لفظ تو ایسے ہوتے ہیں جو اہل لغت کی تخلیق ہوتے ہیں۔ مگر دوسری زبانوں کی کچھ لفظ بھی یوں لغت کا حصہ بن جاتے ہیں کہ معاشرےکی ہر سطح پر بکثرت استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ مثلا انگریزی زبان کا لفظ “ٹینشن” لے لیجئے۔ یہ موچی سے لے کر پروفیسر تک سب استعمال کر رہے ہیں۔ اور کسی کو یہ الجھن نہیں کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہے ؟ چنانچہ یہ اردو لغت کا باقاعدہ حصہ اگر ابھی نہیں بھی بنا تو جلد بن جائے گا۔ کیونکہ عملا یہ اردو زبان کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔

اب مدرسے کا رائٹر کرتا یہ ہے کہ وہی مدرسے کی عربی و فارسی اصطلاحات تحاریر میں ٹھوکے جا رہا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ عام آدمی کے پلے ہی کچھ نہیں پڑتا کہ مولوی صاحب کہہ کیا رہے ہیں۔ معاشرے سے اس کی زبان میں بات کرنا کتنا اہم ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیجئے کہ ہماری عمر ابھی صرف 21 برس تھی۔ قلم اٹھائے صرف ایک برس ہوا تھا۔ ہم اپنے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کے دفتر میں ملازم تھے۔ ایک شام رخصت ہوتے وقت ان کی ہم پر نگاہ پڑی تو آنکھیں چمک اٹھیں اور اپنے نائب مولانا سعید احمد جلالپوری شہید کی جانب دیکھ کر فرمایا

“مولانا ! اس لڑکے کی سب سے خاس بات یہ ہے کہ یہ معاشرے سے معاشرے کی زبان میں بات کرنا جانتا ہے”

سوال یہ ہے کہ صرف مدرسے کا طالب علم رہنے کے باوجود ہم محض اکیس برس کی عمر میں معاشرے سے معاشرے کی زبان میں بات کیسے کر پا رہے تھے ؟ یہ صلاحیت آئی کہاں سے تھی ؟ یہ انہی ناولز اور ڈائجسٹوں کے مطالعے سے آئی تھی جن کے ہمارے صندوق سے برآمد ہونے پر ہم نہ جتنے کتنی بار بطور طالب علم پٹے تھے۔ یقین مانئے طالب علم کے لاکرز یا صندوق سے ناول کا برآمد ہونا اتنا سنگین معاملہ ہوتا کہ پورے مدرسے میں چہ می گوئیاں شروع جاتیں کہ استغفراللہ اس لعنتی کے صندوق سے پھر ناول برآمد ہوگیا ہے۔ اس باب میں ہم نے اتنا بڑا ریکارڈ قائم کر رکھا ہے کہ کسی کے اباجی بھی اگلے سو سال تک اسے نہیں توڑ سکتے۔ سال 1986 تھا۔ دارالعلوم رحمانیہ بفرزون کراچی میں ہمارے لاکرز سے ایک نہیں، دو بھی نہیں، ناں صاحب ناں تین بھی نہیں پورے 35 ناولز برآمد ہوئے تھے۔ یہ انہی ناولز کا احسان ہے کہ جب ہم دین کی بھی بات کرتے ہیں تو ملا و مسٹر دونوں ہی بغور سنتے ہیں۔ سننے کے بعد قبول یا رد کلی طور پر ان کا اختیار ہے۔ مگر بات ہماری وہ کسی بھی مشکل کے بغیر پڑھ اور سمجھ لیتے ہیں۔

سندھ کی تمام یونیورسٹیوں میں تدریسی عمل معطل، وجہ کیا ہے؟

ہمارے مدارس کے بچوں کو آج بھی جدید علوم اور اور ماڈرن فکشن کے مطالعے سے ڈرایا جا رہا ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ ایسی کتب کا مطالعہ تمہیں گمراہ کرسکتا ہے۔ اور بعض جگہ تو بطور مثال ہمارا نام بھی لیا جاتا ہے کہ دیکھتے نہیں وہ کتنا گمراہ ہوچکا ؟ آپ یقین مانیں گے بنوری ٹاون جیسے بڑے مدرسے کی دورہ حدیث کی کلاس میں دوران سبق ہمارا “ذکرخیر” ہوا ہے۔اگر بارہ بارہ سال لگا کر قرآن و حدیث پڑھنے کے بعد بھی ایمان اتنا کمزور رہ جاتا ہے کہ اسے ماڈرن لٹریچر کی ایک کتاب تحلیل کرسکتی ہے تو پھر یہ مدارس تیر کونسا مار رہے ہیں ؟ جانتے ہیں ان لغو پروپیگنڈوں کا مقصد اصلی ہوتا کیا ہے ؟ بس یہ کہ وہاں سے نکلنے والا رائٹر ساری زندگی “علمائے دیوبند کا شاندار ماضی” لکھتا رہے۔ سو یہ خود ہی لکھتے ہیں، اور خود ہی پڑھتے ہیں۔ جنگل کا مور ہے، اس کا رقص بس جنگل ہی دیکھ پاتا ہے۔

Related Posts