سپریم کورٹ نے9 مئی واقعات کے بعد گرفتار تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے 7رکنی نیا بینچ بھی تشکیل دیدیا۔

نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میں اس بینچ کو ”بینچ“تصور نہیں کرتا،جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا،پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، بینچ سے اٹھ رہا ہوں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا۔

یہ عدالت ہی نہیں، جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہر بینچ غیرقانونی ہے، آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنیکا حلف اٹھایا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا۔

جمعرات کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیابینچ میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی بینچ کا حصہ بنایا گیاجبکہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی بینچ کا حصہ تھے۔

سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، عدالت کو اختیار سماعت آئین کا آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا۔ انہوں نے کہاکہ تعجب ہوا کہ گزشتہ رات8 بجے کازلسٹ میں میرا نام آیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13اپریل کو سپریم کورٹ کے9رکنی بینچ نے حکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی۔ سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے۔

جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بینچ میں سماعت کیلئے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل184/3 میں رولزبنائے جائیں۔

اس کے بعد تعجب دکھ اور صدمہ ہوا کہ 31مارچ کو عشرت علی صاحب نے سرکلر جاری کیا، عشرت علی صاحب نے 31مارچ کے سرکلرمیں کہا کہ سپریم کورٹ کے 15 مارچ کے حکم کو نظر انداز کریں، یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی؟ پھرسپریم کورٹ نے6 ممبر بینچ بنا کر سرکلر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا، میرے دوست یقینا مجھ سے قابل ہیں تاہم میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اس 6 ممبر بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟ میں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریرکیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کے بعد ہٹادیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو پوچھا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں؟

بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنادیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق، کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پربینچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جاسکتا ہے معطل نہیں کیا جاسکتا، مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا۔

نامزد چیف جسٹس نے کہاکہ چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے، اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو لکھا کہ نوٹ اپنے تمام کولیگز کو بھی بھیجا۔

مزید پڑھیں:اسحاق ڈار سے سوال کرنا صحافی کو مہنگا پڑ گیا، ویڈیو سامنے آگئی

میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کرکے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔

Related Posts