دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر عام انسانوں کی بڑی تعداد اس خواہش کا اظہار کرتی ہے کہ کاش وہ بھی ان کی طرح بنیں، ایسے افراد کامیاب قرار پاتے ہیں اور لوگ ان کی زندگیوں اور ان کے کردار سے روشنی پاکر اپنی زندگی کی راہیں متعین کرتے ہیں۔
عموما ایسے کامیاب افراد کی زندگی کی گاڑی سخت محنت، ریاضت اور المیوں، اذیتوں اور مشکلات کی گزرگاہوں سے ہوکر گزری ہوتی ہے۔ دیکھنے والوں کی نظر ان کی کامیابی کے نقطہ عروج پر ہوتی ہے، مگر یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کامیابی نے کتنی ہی ناکامیوں اور مشکلات پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی معروف پاکستانی یوٹیوبر اسٹرونگ عظمیٰ کا نام بھی ایسے افراد میں شامل ہے، جنہیں لوگ کامیاب شخصیات میں شمار کرتے ہیں، مگر یہ کم ہی لوگ جاتنے ہیں کہ اسٹرونگ عظمیٰ نے کامیابی اور مضبوطی کی منزل کس قدر جانگسل محنت کی گزرگاہوں سے گزر کر پائی ہے۔
ایم ایم نیوز نے اسٹرونگ عظمیٰ کی کامیابی کی کہانی ان کی اپنی زبانی دریافت کرنے کی ٹھانی اور اس مقصد کیلئے ان سے ملاقات کی، جس کا احوال پیش خدمت ہے۔
اسٹرونگ عظمیٰ کا نام سن کر جو سوال سب کے ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہی ہے کہ نام کے ساتھ اسٹرونگ کیوں اور کیسے جڑا؟ یہی وہ سوال ہے جس کے جواب میں اسٹرونگ عظمیٰ کی زندگی کی وہ ساری کہانی سامنے آتی ہے جو سراسر تلخیوں، ناکامیوں، مشکلات، مصائب اور قدم قدم پر رکاوٹوں سے عبارت ہے اور ان تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے ایک عورت ذات وکٹری اسٹینڈ پر پہنچ جاتی ہے تو وہ اسٹرونگ عظمیٰ کی صورت میں دنیا کے سامنے آتی ہے۔
ایم ایم نیوز کے سوال پر اسٹرونگ عظمیٰ نے بتایا کہ یہ نام میرے بیٹے کا دیا ہوا ہے، بیٹے نے جب میری سخت محنت، ریاضت اور جدوجہد دیکھی تو میں اس کی نگاہ میں ایک مضبوط انسان کے طور پر آگئی، یوں اسٹرونگ کا لفظ میرے بیٹے نے میرے نام سے جوڑا۔
انہوں نے اپنی زندگی کی کتھا بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سنہ دو ہزار میں والدین کے ہمراہ گاؤں سے لاہور شفٹ ہوئے، جہاں والد کے ساتھ سخت محنت کرکے چھوٹا سا گھر بنایا، 2005 میں عظمیٰ کی شادی ہوجاتی ہے، شوہر بڑے پڑے لکھے ہوتے ہیں، جبکہ عظمیٰ ان پڑھ دیہی عورت۔
چند سال ساتھ گزار کر شوہر عظمیٰ کو چھوڑ کر ایک دن ایسے غائب ہوجاتے ہیں کہ ان کا اتا پتا اور نہ ہی نام و نشان کا سراغ کہیں سے ملتا ہے۔ یہیں پر عظمیٰ ایک فیصلہ کرتی ہیں اور یہی فیصلہ انہیں اسٹرونگ عظمیٰ کے مقام تک پہنچا دیتا ہے۔
عظمیٰ سوچتی ہیں کہ اگر میں نے تعلیم حاصل نہ کی تو میرا مستقبل گھروں میں کام کرنے والی ماسی کی ہو کر رہ جائے گی اور زندگی یونہی گزر جائے گی۔ انہوں نے یہ سوچ کر تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
چنانچہ میٹرک، انٹر، ایف اے، بی اے کے بعد وہ سخت محنت اور چھوٹی چھوٹی ملازمتوں سے پیسہ جوڑ جوڑ کر ایم بی اے اور پھر ایم فل تک کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس دوران انہوں نے اخراجات پورے کرنے کیلئے اسکولوں میں سویپر کی ملازمت تک کی۔
عظمیٰ نے بتایا کہ اس دوران طویل عرصہ انتظار اور مشکلات کاٹنے کے باوجود جب شوہر کا کوئی سراغ نہیں ملا تو عدالت سے خلع حاصل کرنے کے بعد ان کی دوسری شادی ہوگئی۔ عظمیٰ نے بتایا کہ ایم بی اے کے لاسٹ سمسٹر کے دوران انہیں ایک اچھی جگہ جاب بھی مل گئی، تاہم اسی جاب کے دوران انہیں ایک سخت بیماری لاحق ہوگئی۔
عظمیٰ نے بتایا کہ بیماری کے باعث اس قدر تکلیف اور اذیت بڑھ گئی کہ میں نے خودکشی کا فیصلہ کرلیا، مگر اس موقع پر میرا بیٹا سامنے آگیا اور اس نے بتایا کہ نہیں ماما آپ ایسا نہ کریں، بیٹے نے نہ صرف خودکشی سے مجھے بچایا بلکہ یوٹیوب کے ذریعے اپنی کامیابی کی کہانی دنیا کو سنانے کی رائے بھی دی۔ یہیں سے میرا یوٹیوب کا سفر شروع ہوگیا۔
بیٹے نے ہی مجھے بتایا کہ اس سے آپ کو انکم بھی ملے گی اور آپ کی بیماری کا سن کر لوگ دعا بھی کریں گے تو اس سے آپ کی بیماری بھی دور ہوجائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں ویوز دیکھ کر اس قدر خوشی ہوتی تھی کہ اس کی مسرت بتائی نہیں جا سکتی۔
انہوں نے بتایا کہ یوٹیوب سے پہلی بڑی آمدن سے ہی ہم نے رفاہی کاموں کا بھی آغاز کردیا، جس کی برکت سے الحمد للہ میں اس قدر رفاہی کام کر چکی ہوں کہ مجھے خود حیرت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے زندگی میں جو کام بھی کیا ہے پورے دل سے اور عشق کے ساتھ کیا، یہی میری آج تک کی کامیابی کا اصل سبب ہے۔ میں نے دوسری شادی گریجویشن کے بعد کی اور شادی کے بعد ایم بی اے کیا۔
انہوں نے بتایا کہ میری آمدن کا بڑا حصہ رفاہی کاموں پر خرچ ہوتی ہے، انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک کمرے پر مشتمل ووکیشنل سینٹر سے آغاز کیا تھا، آج ہم پانچ سینٹر چلا رہے ہیں اور اس کے بیشتر اخراجات میں اپنی آمدن سے ادا کرتی ہوں۔
انہوں نے اپنے نئے پروجیکٹ کے متعلق بتایا کہ وہ آج کل ایک بڑے فری اسپتال کے منصوبے پر کام کر رہی ہیں، جس میں مرحوم گلوکار اسدعباس کے نام پر فری ڈائیلاسز کڈنی سینٹر بھی شامل ہوگا۔