کل پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کورونا وائرس وبائی مرض کے باعث پیدا ہونے والی گراوٹ کو دور کرکے رواں سال فروری کے بعد پہلی بار40,000کی سطح پر پہنچ کر بند ہوا، اس دہائی میں چوتھی بار حصص کا مجموعی حجم 800 ملین سے تجاوز کرگیا۔ حصص کی تجارت کا مجموعی حجم 826.043 ملین تھا۔
بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 283.34 پوائنٹس کے اضافے کے ساتھ 40,166.12 پوائنٹس پر ختم ہوا۔ اس صورتحال کے بعد کاروبار نیچے کی سطح پر آیا لیکن تیزی کے ساتھ آج کے دن 40,000 پوائنٹس کی سطح پر پہنچ کر بند ہوا۔
گذشتہ سال کے دوران، پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میں 27.91 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اور پچھلے تین ماہ میں، پی ایس ایکس میں 17.33 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ انڈیکس مارچ میں اپنی نچلی سطح پر پہنچنے کے بعد مزید بڑھ رہا ہے،جب کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا وبائی مرض کا اعلان کیا اور اس کے فوراً بعد ہی دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں نے اس پر رد عمل ظاہر کیا۔
دنیا بھر میں پھیلے کورونا وائرس کے مرض کے باعث افرا تفری پیدا ہوگئی۔ دنیا بھر کی حکومتیں اس بحران سے نمٹنے میں ناکام تھیں اور اسے کنٹرول کرنے کے لئے کوششوں میں مصروف تھیں۔ مگر اس میں ناکام رہیں۔ تاہم، پاکستان اسٹاک مارکیٹ اب گراوٹی مارکیٹ سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ میں داخل ہوگئی ہے۔
اسٹاک مارکیٹ کے اوپر جانے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، مانیٹری پالیسی میں تبدیلی اس کے پیچھے ایک اہم وجہ ہے۔ فیکٹریوں اور دوسرے تاجروں کو کم ہونے والی مالیاتی پالیسی سے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
پاکستان کی تجارتی پالیسی نے بھی اس سلسلے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے دانشمندی سے غیر ضروری درآمد کو کم کرنے کا فیصلہ کیا اور برآمد کنندگان کو برآمد کرنے کے لئے سہولیات دیں، جس کے باعث پاکستان نے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
آنے والے دنوں میں، چین، ایران، نیپال، افغانستان، اور بہت سارے دوسرے یورپی ممالک کے ساتھ تجارتی پالیسیاں اور پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کی وجہ سے پاکستان کی صنعتوں کو فروغ ملے گا، ایک بار جب یہ صنعتیں ترقی کرنے لگیں،تو صنعتوں کی پیداوار اور محصولات میں اضافہ ہوگا اور اس کا اثر پاکستان کی معیشت اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر پڑے گا۔
اگر ہم اپنے اہداف حاصل کرتے ہیں تو ہم اگلے سال کے اختتام تک ایک مثبت شرح نمو حاصل کرسکیں گے۔ تاہم، اگر ہم ایک قوم کی حیثیت سے کام نہیں کرتے ہیں تو ہمارے سروں پر قرضوں کی ادائیگی کی تلوار ہمیشہ موجود رہے گی۔ ہمیں حکومت کی مثبت پالیسیوں کی حمایت کرنا ہوگی اور دوسری طرف، حکومت کو اپنی معاشی پالیسیوں کی اصلاح اور بہتری کے لئے حزب اختلاف کی مثبت تنقید پر بھی غور کرنا ہوگا۔