پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ اس ملک کے غیر یقینی حالات بھی ہیں جو ملازمت پیشہ افراد کے ساتھ ساتھ کاروباری افراد کیلئے بھی وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔
کسی بھی ملک میں اگر کسی غیر ملک سے سرمایہ کاری آتی ہے، کوئی شخص اپنا پیسہ لگاتا ہے تو سوچ سمجھ کر ہی لگاتا ہے کہ اس ملک کے حالات مستحکم ہیں اور جو سرمایہ لگایا گیا ہے، وہ منافع کے ساتھ واپس لوٹ آئے گا مگر یہاں یہ صورتحال نہیں ہے۔
بیرونی سرمایہ کاری کی تو چھوڑئیے، یہاں پاکستان اسٹاک مارکیٹ ہی ایک بڑا معمہ بنی ہوئی ہے۔یکم دسمبر کو کے ایس ای 100 انڈیکس 61 ہزار 691پوائنٹس کی سطح پر تھا جو 15 دسمبر کو 66ہزار 130 پوائنٹس کی سطح پر جا پہنچا جو مثبت رجحان تھا۔
سرمایہ کاروں کا حوصلہ بڑھا اور انہوں نے مزید سرمایہ کاری شروع کردی جس کے بعد 18دسمبر کو کے ایس ای 100انڈیکس گر کر 65ہزار کی سطح پر پہنچا اور آہستہ آہستہ تنزلی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ گزشتہ روز مارکیٹ میں 2ہزار 400 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔
جس وقت یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں، کے ایس ای 100 انڈیکس 60 ہزار پوائنٹس سے بھی نیچے گر کر 59 ہزار 293پوائنٹس کی سطح پر آچکا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مارکیٹ کسی خاص رجحان کے تحت اتار چڑھاؤ کا شکار نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک مصنوعی بحران ہے۔
جب بھی ہم اسٹاک مارکیٹ کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں کچھ حقائق کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر کاروبار کی کیا صورتحال ہے، مثال کے طور پر روس یوکرین جنگ اور غزہ اسرائیل سانحہ دو اہم واقعات ہیں جن سے مارکیٹ متاثر ہوسکتی ہے۔
دوسرے نمبر پر دیکھا جاتا ہے کہ سرمایہ کاروں کے جذبات کیسے ہیں، وہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ تو لگا رہے ہیں، لیکن ان کے مقاصد کیا ہیں، وہ منفی خبروں، افواہوں اور ایک دم سے پھیلائی جانے والی غلط اطلاعات سے پریشان ہو کر شیئرز بیچ سکتے ہیں۔
تیسرے نمبر پر جس بات کا تجزیہ کیا جاتا ہے وہ حکومت کی متعارف کرائی گئی پالیسیاں ہیں، کیا کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہے جو سرمایہ کاروں کو پیسہ لگانے سے روکے؟ مثال کے طور پر الیکشن کمیشن نے 8فروری کو عام انتخابات کا اعلان کیا، یہ ایک اچھی خبر ہے۔
تاہم پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لے لیا گیا، اس سے وہ سرمایہ کار پریشان ہوسکتے ہیں جو تحریکِ انصاف کو سپورٹ کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے حوالے سے خدانخواستہ کوئی منفی خبر سامنے آئے تو سرمایہ کاروں کو پریشانی ہوگی۔
حکومت کی پالیسیاں، نئی ریگولیشن، مانیٹری پالیسی میں تبدیلی اور شرحِ سود بھی اہم نکات ہیں جو سرمایہ کاروں کی سوچ کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر اسٹاک ایکسچینج میں لسٹڈ کمپنیاں بہتر کاروبار نہ کر رہی ہوں تو سرمایہ کاری متاثر ہوسکتی ہے۔
تاہم بعض تجزیہ کاروں کا ماننا یہ ہے کہ کے ایس ای 100 انڈیکس کا اتار چڑھا دراصل مصنوعی ہے جس کے پیچھے ایک بڑا مافیا ہے جسے اس اتار چڑھاؤ سے اربوں کا فائدہ ہوتا ہے اور چھوٹے سرمایہ کار راتوں رات کنگال اور دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔
یہ مبینہ مافیا جھوٹی خبریں پھیلا کر، اسٹاک کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر بڑھا چڑھا کر یا حقیقی ویلیو سے کہیں کم کرکے نئے سرمایہ کاروں کو پہلے پیسہ لگانے پر راغب اور پھر متنفر کردیتا ہے تاکہ اسے شیئرز اپنی مرضی کے نرخوں پر دستیاب ہوسکیں۔
مارکیٹ کب اوپر جائے گی، کب شیئرز کے دام کس حد تک نیچے گریں گے، سرمایہ کاروں کی ایک معقول تعداد کو اس کا ایک خاطر خواہ اندازہ کم و بیش ہر وقت ہوتا ہے جس کی بنیاد پر بڑی مچھلیاں جب چاہتی ہیں، مل جل کر اسٹاک مارکیٹ کو اپنی مرضی سے اوپر نیچے کرسکتی ہیں۔
ایسے میں چھوٹے سرمایہ کاروں کیلئے اسٹاک مارکیٹ جیسے کاروبار پر پیسہ لگانا کسی سنگین خطرے سے کم نہیں۔ بہتر ہے کہ ملک کے غیر یقینی حالات کے ساتھ ساتھ اسٹاک مارکیٹ کا بھی جائزہ لیا جائے اور اربابِ اقتدار خاطر خواہ اصلاحات عمل میں لائیں۔