عموماً سمجھا جاتا ہے کہ لاٹھی اور پتھر انسان کی ہڈیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن الفاظ سے اسے کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔ کیا واقعی؟ اس وقت تک نہیں جب تک کہ ہم روبوٹ نہ پیدا ہو گئے ہوں۔
آئیے ذرا ایمانداری سے جائزہ لیتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی چاہے کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلے، ہراسگی اور توہین سے محفوظ نہیں۔ پھر بھی بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جسمانی حملہ ہمیں زخمی کرسکتا ہے، زبانی حملے سے کچھ نہیں ہوگا۔
یہ کتنی ستم ظریقی ہے کہ ہم گر جائیں اور چوٹ کھا کر صحت یاب بھی ہوجائیں، اور جب جسم ٹھیک ہوجائے تو ہم آسانی سے بھول بھی جائیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا۔ پھر جب ہم زندگی کی دوڑ میں ہلچل مچانے لگیں تو اچانک وہ نام یا لفظ یاد آئے جو ہم سے کہا گیا تھا۔ جس سے ایک عدم تحفظ اور تنگی کا احساس جنم لیتا ہے۔
شاید وہ کوئی پنچ لائن ہے جس کے ساتھ اب ہم خود کو جوڑتے ہوں یا کوئی خامی جس کی نشاندہی جلد بازی میں کی گئی ہو۔ وہ آواز ہمیں وقتاً فوقتاً یاد آتی اور شکست کا بے بس اور دلگرفتہ احساس دلاتی ہے جس سے وہ عدم تحفظ پیدا ہوا تھا جس میں ہم جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
دراصل الفاظ کے زخم ختم نہیں ہوتے بلکہ ہمارے لاشعور میں رچ بس جاتے ہیں جہاں ایسے زخموں اور توہین آمیز فقروں کیلئے ایک خاص جگہ بنی ہوتی ہے جسے ہم پورٹل کا نام دے سکتے ہیں۔
جب دل ٹوٹتا ہے تو وہ فقرے یاد آتے ہیں جو جسم کے ریشے ریشے کو چیر ڈالتے ہیں کیونکہ آپ کی روح نے انہیں سہا۔ وہ کربناک احساس باقی اور برقرار ہو اور پھر بھی دل کے ٹوٹنے کے دوران ہمارے ساتھ جسمانی طور پر کچھ نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف جذبات کی شکست و ریخت ہوتی ہے جو کسی بھی جسمانی چوٹ سے زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر 7 میں فرماتا ہے کہ اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں اور دوں گا۔ سورۂ ابراہیم ایک مکی سورۃ ہے جو ہنگامہ خیز دور اور آزمائش کے وقت نازل ہوئی تھی۔ سورۃ کی ابتدا سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح امتِ مسلمہ دشواریوں میں بھی ثابت قدم رہی۔ کافروں اور منافقین کی دی گئی مصیبتوں کو برداشت کرنا۔ اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنا، تمام لامحدود نعمتوں کا شکرگزار ہونا اور اللہ کی بندگی انسان کی وجودی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
فی الحال سوشل میڈیا کا دور ہے تو ہمارا برکات سے محروم اور موازنے کی آزمائش میں پڑنا آسان ہوچکا ہے۔ ہم بہترین لباس زیب تن کرنے والے لوگوں کی بے عیب تصاویر دیکھتے ہیں اور ان کی دلکش زندگی خود کو گزارتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی شخص لالچ یا پھر اضطراب سے نبرد آزما ہوسکتا ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے باعث یہ چیز بڑھتی ہی جارہی ہے۔
یہ بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امتحان ہے جو آپ کو اپنی برکات سے آگاہ کر رہا ہے۔ جن چیزوں کو ہم معمولی سمجھ رہے ہیں، وہ آزمائشیں ہی ہمیں اس وقت حاصل مراعات کا ادراک کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ وہ خوبصورتی جو ہم انٹرنیٹ پر اسکرول کرکے دیکھتے ہیں، تو وہاں بھی ہماری صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگائے جاتے ہیں۔ اگر ہم پر زبانی طور پر یہ لاٹھیاں اور پتھر نہ پھینکے جائیں تو ہمیں اپنی فتح حاصل کرنے کی ہمت کا احساس نہ ہو۔ یہ اضطراب بھی اللہ کی طرف سے ہے جس سے آپ کو اپنی بے پناہ طاقت کا احساس ہوتا ہے۔ ناقابلِ تسخیر طاقت جو صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔
انسان پیدائشی طور پر کامل نہیں ہوا کرتا تاہم اللہ کی سب سے خوبصورت تخلیق انسان ہی ہے۔قدرت میں جادو اور عجائبات تلاش کرنا وہ سب سے یقینی ذریعہ ہے جس کے ذریعے بچے زندگی کی خوشی کو دوبارہ دریافت کرتے ہیں۔
خطرہ مول لینا اور تجسس اور مکمل یقین کے ساتھ کہ ہمارے دل کی خواہش پوری ہوگی، شاید شکر گزاری کا اصل راز چھوٹی چیزوں کو سمجھنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس شخص سے ہم پیار کرتے ہیں، اسے دیکھنا ہمارے اندر انقلاب لاسکتا ہے۔ اپنے آپ میں وہ جذبہ پیدا کریں کہ ہمیں سب سے بہتر انسان بننا ہے جبکہ محبت کے بغیر خواہشات تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ دلکش یادیں، حقیقی زندگی کو سمجھنا اور دل پر نقش چھوڑ جانا وہ عظیم اعزاز ہے جس سے یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ زندگی واقعی جینے کے قابل ہے۔