سری لنکا اب تک کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ یہ ملک پہلی بار غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی حوالے سے ڈیفالٹ ہوا ہے، ملک میں 12گھنٹے کی بجلی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے، جبکہ خوراک، ایندھن، ادویات اور ضروری اشیاء کی شدید قلت ہے۔
افراط زر 17.5 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے اور شرح سود سات فیصد بڑھا کر 14.25 فیصد کر دی گئی ہے۔ شدید مقروض قوم کے پاس درآمدات کی ادائیگی کے لیے رقم ختم ہو چکی ہے، یعنی ان کے پاس ایندھن نہیں ہے۔ بسوں کے لیے ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ ٹھپ ہو گئی ہے۔ اس سال پیپرز کی کمی کے باعث بچے امتحانات نہیں دے سکے۔
سڑکوں پر احتجاج تقریباً ایک ماہ سے جاری ہے۔ حکومت نے خراب حالت کے پیش نظر ہنگامی حالت نافذ کی تھی،جسے عوامی غم و غصے کے بعد واپس لے لیا گیا۔ وزیر خزانہ نے استعفیٰ دے دیا ہے اور کاروباری رہنماؤں نے خبردار کیا ہے کہ اس سال برآمدات میں 20-30 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ بحران کے درمیان، ملک کے پاس آخری حربے اور قرض دہندہ کے طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
سری لنکا اس حالت پر کیسے پہنچا؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سری لنکا کے چین کے ساتھ معاشی تعلقات بحران کے پیچھے بنیادی محرک ہیں۔ اسے ‘قرض کا جال’ کہا جاتا ہے جس میں سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے ملک کو قرضے دیے جاتے ہیں۔ چین کے قرضے سری لنکا کے قرضوں کا 10% ہیں۔
بحران کی وجہ یکے بعد دیگرے حکومتوں کی معاشی بدانتظامی تھی جس نے ڈبل خسارہ پیدا کیا اور اسے برقرار رکھا – بجٹ کی کمی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ گیا۔ سری لنکا چائے، گارمنٹس، ربڑ اور مصالحوں کی برآمد پر انحصار کرتا ہے۔ جوایک منافع بخش سیاحتی منڈی تھی، مگر کورونا وائرس کی وباء کے بعد اس کو شدید نقصان پہنچا۔
برآمدات میں کمی ایک اقتصادی جھٹکے کے طور پر سامنے آئی اور زرد مبادلہ کے ذخائر کو دباؤ میں ڈالا، یہ صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ حکومت آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی وجہ سے محرک فراہم کرنے میں ناکام رہی اور ترقی، سرمایہ کاری، بچت اور آمدنی میں کمی کے باعث معیشت کی حالت ابتر ہو گئی۔
سری لنکاہمارے سامنے ایک مثال ہے کہ قرض کس طرح ایک قوم کو نیچے لا سکتا ہے۔ 1965 سے، اسے عالمی قرض دہندہ ممالک سے 16 قرضے ملے۔ قرضے آتے رہے، جس کے باعث برآمدات میں کمی سامنے آئی اور معاشی بحالی کا کوئی امکان نظر نہ آیا اور سری لنکا کے عام لوگوں کے مصائب میں اضافہ ہوا۔