اہلِ علم کہتے ہیں کہ زمانے پر یہ الزام غلط ہے کہ وہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بدل جاتا ہے کیونکہ لوگ وقت بدلنے پر خود ترجیحات بدل لیتے ہیں اور بعد ازاں زمانے پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ بدل گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب ٹی وی پر نشر ہونے والی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی تھی، آج ٹی وی بھی سوشل میڈیا کا محتاج نظر آتا ہے۔
وفاقی و صوبائی وزراء، اراکینِ اسمبلی اور دیگر افراد عوام سے جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، اس کیلئے ٹی وی کی بجائے سوشل میڈیا کو زیادہ پسند کرتے ہیں جن میں ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام سرِ فہرست ہیں۔ اگر آپ ٹوئٹر کے فعال صارف ہیں تو آپ فرحان خان ورک کو کسی نہ کسی حوالے سے ضرور جانتے ہیں۔
آج کل فرحان ورک کا نام پاکستان کی ٹوئٹر فضاء میں متنازعہ ہونے کے باوجود اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ فرحان ورک کیلئے انفلؤنسر کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے اور عموماً یہ مشہور ہے کہ اگر کسی ہیش ٹیگ یا ٹرینڈ کو تقویت پہنچانی ہو تو فرحان ورک کیلئے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔آئیے ہم آپ کو فرحان ورک کے بارے میں چند حقائق سے روشناس کراتے ہیں۔
فرحان ورک کون؟
بین الاقوامی میڈیا فرحان ورک کو قومیت پرست قرار دیتا ہے جو ریاستِ پاکستان کی پشت پناہی کے ساتھ ٹیم عمران خان نامی ایک ٹوئٹر صارفین کے گروہ کی قیادت کرتے ہیں جس میں کم و بیش 1000 رضا کار موجود ہیں۔
جب کبھی پاک بھارت تنازعات عروج پکڑتے ہیں، فرحان ورک ایک آن لائن حملے کا اہتمام کرتے ہیں، ان کی بیگم بھی سوشل میڈیا صارفین کی ایک فوج کی سربراہ کہی جاسکتی ہیں جو پروپیگنڈہ جنگ کا ایک اہم حصہ ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے کیا ہوسکتا ہے؟
ابلاغ کے ہر طالبِ علم کو سمجھایا جاتا ہے کہ مرغی اور کٹل فش کی مثال اپنے سامنے رکھے۔ کٹل فش سمندر کی گہرائی میں خاموشی سے ہر روز سینکڑوں انڈے دیتی ہےجو مرغی کے انڈوں سے زیادہ لذیذ ہوتے ہیں جبکہ مرغی ایک انڈہ دے کر شور مچا دیتی ہے۔ کٹل فش کے انڈے کوئی کھاتا نہیں اور مرغی کے چھوڑے نہیں جاتے۔
ایک ہی واقعے کی خبر ہمیشہ ایک نیوز چینل پر ایک رنگ میں جبکہ دوسرے چینل پر کسی اور انداز سے نظر آتی ہے۔ غور کیا جائے تو فرحان ورک سوشل میڈیا ٹرینڈز قائم کرسکتے ہیں، اپنی رائے کو عوام کی رائے بنا کر پیش کرسکتے ہیں، پروپیگنڈہ کی جنگ میں ایک خبر کو دوسرا رنگ دے کر پیش کیا جاسکتا ہے۔یہ بہت بڑی طاقت ہے۔
ٹوئٹر کی طاقت
فرحان ورک کے پاس کم وبیش 3 لاکھ فالوورز موجود ہیں جو ان کے بیانات، خبروں اور دیگر مواد پر مختلف ردِ عمل دیتے ہیں۔ ردِ عمل مثبت ہو یا منفی، یہ 3 لاکھ افراد فرحان ورک کی بات کو سننا اہم سمجھتے ہیں، اس لیے ان کے نیٹ ورک کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
تین لاکھ کسی بھی چھوٹے سے شہر کی آبادی کہی جاسکتی ہے جو پاکستان میں موجود اہم شہروں کی آبادی سے بے حد کم سہی، پھر بھی اس کی اپنی اہمیت مسلمہ ہے۔ وہی لوگ اگر فرحان ورک کے مواد کو اپنا کہہ کر شیئر یا لائیک کریں یا ری ٹویٹ کریں تو 3 لاکھ کی آبادی دو گنا سے لے کر 10 لاکھ گنا تک سوشل میڈیا صارفین پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔
ایسا اِس طرح ممکن ہے کہ فرحان ورک کے فالوورز میں سب لوگ عام سوشل میڈیا صارفین نہیں ہوسکتے، ان میں وفاقی وزراء، اراکینِ اسمبلی اور بااثر سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ سماجی شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد بھی ہوسکتے ہیں جن کے اپنے سوشل میڈیا فالوورز ہزاروں کی بجائے لاکھوں میں ہوں۔
ایک اکاؤنٹ کی معطلی کے علاج کیلئے فرحان ورک نے ایک دوسرا ٹوئٹر اکاؤنٹ بنا رکھا ہے۔ اپنے صارفین کیلئے وہ قائدِ خیال قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ حکومتی وزراء کیلئے فرحان کی حیثیت انفلوئنسر کی ہے جس کی مدد سے وہ اپنے رقیب سیاسی رہنماؤں کو دھول چٹا سکتے ہیں جس کا سبب کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا صارفین کی ایک اہم تعداد فرحان ورک کو ایک ٹرول قرار دیتی ہے یعنی وہ ایک ایسی شخصیت ہے جو مثبت یا منفی کسی بھی صورت میں اپنے ذکر سے سوشل میڈیا کی فضا کو آلودہ کرتی ہے جس میں زیادہ تر وطن پرست ہیش ٹیگز کا استعمال کیاجاتا ہے۔
متنازعہ شخصیت قرار دینے پر ردِ عمل
خود فرحان ورک کا یہ کہنا ہے کہ میں نے ٹیم عمران خان کے پلیٹ فارم سے 4 ہزار 500 ہیش ٹیگز کو تقویت مہیا کی اور ہم ٹوئٹر کے ٹرینڈز میں شامل ہوئے۔ بہت سے لوگ مجھے ٹرول قرار دیتے ہیں اور مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ میں ایک ٹرول رہا بھی ہوں۔
متنازعہ شخصیت کہیے یا کچھ اور، فرحان ورک میں یہ حوصلہ ضرور ہے کہ وہ حقیقت کو تسلیم کریں تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ فرحان اگر کسی شخصیت کو اچھا نہ سمجھیں تو ان کی تبدیل کی گئی تصاویر کی بنیاد پر مہم چلا سکتے ہیں جس میں تصاویر کو غیر حقیقی اور ناقابلِ تصدیق انداز میں شائع کیا جاتا ہے۔
شخصیت دشمنی اور اکاؤنٹ کی معطلی
تبدیل کی گئی تصاویر اور غیر مصدقہ معلومات کی بنیاد پر یہ بات واضح ہے کہ فرحان ورک کا زندگی کا نظریہ سچ اور جھوٹ کی زیادہ تصدیق نہیں چاہتا بلکہ جو شخصیت انہیں متنازعہ محسوس ہوتی ہے اور جس کی مذمت کرنا چاہتے ہیں اسے تختۂ مشق بنا ڈالتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں ہوں، شخصیات یا ادارے، فرحان ورک کی پروپیگنڈہ مہم اس کے خلاف شخصیت دشمنی پر مبنی مہم بھی چلا سکتی ہے جس سے حقائق مسخ ہوتے ہیں اور لوگ سچ یا جھوٹ جاننے کی بجائے پروپیگنڈہ وار کے متاثرین بن کر رہ جاتے ہیں۔
جھوٹی خبریں، الزامات اور غیر مصدقہ اطلاعات کے الزامات لگتے رہے اور فرحان ورک کے اکاؤنٹ کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے اگست 2015ء کے دوران معطل کردیا ،جس کے بعد وہ نئے اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا سرگرمیوں میں مصروف نظر آئے، تاہم ٹوئٹر نے اکاؤنٹ کیوں معطل کیا، اس کی کوئی وجہ سامنے نہ آسکی۔
معطل اکاؤنٹ کے مالک فرحان ورک نے بتایا کہ بھارتی اکاؤنٹس جو لودھی روڈ نئی دہلی سے آپریٹ ہو رہے تھے اور ایم کیو ایم کی سوشل میڈیا ٹیم میرے اکاؤنٹ کی معطلی کے ذمہ دار ہیں۔ میں سوشل میڈیا چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن میرے دوست مجبور کر رہے ہیں کہ میں ان کے ساتھ رہوں۔
نتیجۂ فکر
حقیقتِ حال یہ ہے کہ فرحان ورک کی حیثیت سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ سیٹر کی ہے جو اپنی مرضی سے حالات و واقعات کو دیکھتا اور ان کے مطابق فیصلے کرتا ہے کہ کس وقت اسے کیا کہنا چاہئے اور کون سی بات پر کیا رائے دینی چاہئے۔
سیاسی اعتبار سے فرحان ورک پاکستان تحریکِ انصاف اور وزیرِ اعظم عمران خان کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ تحریکِ انصاف کے کوئی کارکن یا متوقع سیاسی رہنما بھی ہوسکتے ہیں جبکہ پروپیگنڈہ کی جنگ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا من پسند ہتھیار ہوتی ہے۔