لاہور ہائی کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی عبوری ضمانت خارج کردی، جس کے بعد نیب حکام نے انہیں گرفتار کر لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق قائدِ حزبِ اختلاف قومی اسمبلی شہباز شریف کی درخواستِ ضمانت پر آج لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی ججز بینچ نے درخواستِ ضمانت کی سماعت کی۔
شہباز شریف کی درخواستِ ضمانت پر ان کے وکیل اعظم نذیر تارڑ اور امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دئیے۔سماعت کے دوران شہباز شریف نے عدالت سے بولنے کی اجازت مانگی۔
ججز بنچ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی وکلاء کے دلائل جاری ہیں، اگر کوئی بات نہ ہوسکے، تو آپ کو بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کی اجازت ہوگی۔ وکیلِ صفائی امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ شہباز شریف کے خلاف ہزاروں صفحات لکھے گئے۔
وکیلِ صفائی امجد پرویز نے کہا کہ 58 والیمز کے کیس میں اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی کے خلاف کوئی دستاویزی شہادت نہیں ملتی، شریف گروپ آف کمپنیز کی کسی بھی دستاویز سے ملزم شہباز شریف کا کوئی تعلق نہیں۔
امجد پرویز نے کہا کہ شریف گروپ آف کمپنیز میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کوئی عہدہ نہیں رکھتے۔ شہباز شریف نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) 250 سال لگا کر بھی مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کرسکتا۔
شہباز شریف نے کا کہ میں نے قومی خزانے کے 100 کروڑ روپے بچائے، فیصلے ضمیر کے مطابق کیے جن سے کسانوں کی بجائے میرے ہی رشتہ داروں کو نقصان ہوا۔ اگر میں کرپشن کرتا تو واپس نہ آتا۔ حکومت مجھے چپ کرانا چاہتی ہے۔
بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی عبوری ضمانت خارج کردی جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کے افسران نے ن لیگ کے صدر شہباز شریف کو ہائی کورٹ سے ہی گرفتار کر لیا۔
گرفتاری کے بعد عدالت کے باہر موجود ن لیگی کارکنان کی بڑی تعداد نے مشتعل ہو کر شدید نعرے بازی کی۔ پولیس حکام نے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کر رکھے تھے جس کے نتیجے میں کوئی افسوسناک واقعہ پیش نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں: کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا، گرفتاری کیلئے تیار ہوں، شہباز شریف