طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا انکشاف

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا انکشاف
طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا انکشاف

کابل:افغانستان میں شدت پسند گروپ طالبان کی کابل میں حکومت ختم ہونے کے باوجود ملک کے بہت سے علاقوں پر اب بھی طالبان کا اثرو رسوخ برقرار ہے۔

مقامی شہریوں نے خبر رساں اداروں کو طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے بارے میں حیران کن تفصیلات فراہم کی ہیں۔

میڈیارپورٹس کے مطابق افغان شہریوں کا کہنا تھاکہ طالبان کی شدت پسندی کا طرز عمل اب بھی وہی پرانا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

جرائم کے مرتکب افراد کی مار پیٹ اور انہیں موت کے گھاٹ اتارنا، لوگوں پر خوف طاری کرنے کے لیے مجرموں کی مسخ شدہ لاشیں سرعام پھینکنا، موبائل فون اور موسیقی سننے پر پابندی جیسے واقعات طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں عام ہیں۔

ایک مقامی شہری جس کا تعلق ارگستان سے ہے نے بتایا کہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد تحریک طالبان کی واپسی سے ملک ایک بار پھر تاریکی میں چلا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جیسے جسیے افغانستان سے امریکی اور غیرملکی فوج واپس ہورہی ہے، لوگوں میں طالبان اور ان کے سخت گیر دور کی واپسی کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔

کمال الدین کا کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ طالبان نے ان کے والد اور بھائی کو محض اس لیے حراست میں لے لیا کیونکہ وہ فون استعمال کرتے ہیں۔ طالبان نے انہیں موبائل فوج کی سمیں نکال کر پھینکنے پرمجبور کیا جس کے بعد انہیں رہائی ملی۔

کمال الدین کا کہناتھاکہ اس نے طالبان کے خوف سے مسجد جانا بھی چھوڑ دیا کیونکہ طالبان انہیں اپنے شدت پسندوں میں بھرتی ہونے پرمجبور کرتے اور بغیر کسی اجرت کے کام کراتے ہیں۔

طالبان کے زیرانتظام قندھار کے علاقے سبیروان کے رہائشی نصار احمد نے کہا کہ طالبان نے بچیوں کو اسکول بھیجنے پرپابندی عاید کررکھی ہے۔ نصار احمد ایک دکان چلاتے ہیں۔ ان کا کہناتھا کہ وہ اپنی بچی کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔ اب وہ شہر چھوڑ کر کسی دوسرے علاقے میں جانے کا سوچ رہے ہیں تاکہ بچی کو اسکول بھیج سکیں۔

طالبان کے زیرانتظام بانگوائے علاقے کی تین بچوں کی ماں شوگوفا نے کہا کہ جب وہ اس علاقے میں آئی ہیں طالبان نے خواتین کو گھروں سے باہر جانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ خواتین گھروں میں محصور ہوکر رہ گئی ہیں۔

بعض لوگوں نے طالبان کی طرف سے عاید کردہ بھاری ٹیکسوں کی شکایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے ٹیکسوں نے کمر توڑ دی ہے مگر تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات تک انہیں میسر نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان، پولیس ہیڈ کوارٹرز کے باہر بم دھماکہ، 4 افراد ہلاک، متعدد زخمی

Related Posts