رواں ماہ سینیٹ انتخابات اور ایوانِ بالا کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن کے حوالے سے اہم رہا۔ حکومت اپوزیشن تنازعات ختم نہیں ہوئے کیونکہ حزبِ اختلاف نے انتخابات کے نتائج عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے نیا سیاسی و آئینی بحران سامنے آسکتا ہے۔
سینیٹ انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف ایوانِ بالا اور قومی اسمبلی دونوں جگہ سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے اور اب پی ٹی آئی کی خواہش ہوگی کہ قانون سازی آسانی سے ہوسکے۔ پی ٹی آئی اپنی مرضی کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین لانے میں کامیاب رہی جس سے پی ڈی ایم کو دھچکا پہنچا ہے تاہم شاید ہی یہ کوئی حیرت کی بات ہو کیونکہ سینیٹ انتخابات پر اکثر ہارس ٹریڈنگ، ووٹوں کی خریدوفروخت اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں چونکہ سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی حکومتی امیدوار صادق سنجرانی سے ہار گئے، اس سے پی ڈی ایم چونک گئی ہے۔ 7 ووٹس مسترد ہونے سے ایک طرف خدشات جنم لے رہے ہیں تو دوسری جانب صادق سنجرانی کو اپوزیشن اتحاد کی جانب سے بھی ایک اضافی ووٹ مل گیا۔ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ ڈپٹی چیئرمین کے حکومتی امیدوار نے بھی اپوزیشن امیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور جیت حکومت کے نام رہی۔
بلاشبہ ایوانِ بالا کے انتخابات شکوک و شبہات کے سائے تلے منعقد ہوئے، حکومت اوپن بیلٹ طریقہ کار پر عملدرآمد میں ناکام رہی جبکہ حزبِ اختلاف رہنما بھی کھلی رائے شماری کے حق میں نہیں تھے۔ ہم نے پولنگ بوتھ میں جاسوس کیمروں کی موجودگی سمیت ووٹنگ کو متنازعہ بنانے کیلئے ہر طرح کے حربے دیکھے جو ہماری سیاسی تاریخ کا قابلِ افسوس واقعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
حزبِ اختلاف نے چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے نتائج کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انتخابی ٹریبونل میں نتائج کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی ملکی تاریخ میں اس ضمن میں عدالت سے رجوع کرنے کی کوئی مثال دستیاب ہے۔ حزبِ اختلاف کو نتائج کو چیلنج کرنے سے قبل تمام قانونی آپشنز کا جائزہ لینا ہوگا جبکہ اپوزیشن اتحاد کو شکست کی وجوہات پر بھی غور کرنا چاہئے جو اختلافات کا شکار نظر آتا ہے۔
انتخابات میں شکست کے باعث یقینی طور پر پی ڈی ایم ایک قدم پیچھے ہٹ چکی ہے اور پی ٹی آئی کو اپوزیشن کا سامنا کرنے کیلئے ضروری مہلت میسر آگئی ہے۔ وزیرِ اعظم کو عہدے سے ہٹانے اور ان سے کرسی چھیننے کی تو بات ہی چھوڑئیے، یقیناً پی ڈی ایم کا اگلا قدم لانگ مارچ ہوگا، لیکن اس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔حکومت کو بھی اپوزیشن کے خلاف محاذ آرائی پر توجہ دینے کی بجائے عوامی فلاح و بہبود اور انتخابی اصلاحات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں جمہوری عمل کو تقویت مل سکے۔