اسرائیل کا خفیہ پیغام

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایک طرف وزیرِ اعظم عمران خان سعودی عرب کے دورے پر سعودی قیادت سے ملاقاتوں میں، مدینہ منورہ میں روضۂ رسول ﷺ کی حاضری اور مسجدِ نبوی ﷺ میں نوافل کی ادائیگی میں مصروف تھے تو دوسری جانب اسرائیل نے مسجدِ اقصیٰ میں عبادت کی ادائیگی میں مصروف مظلوم فلسطینیوں پرحملہ کردیا ۔

اسرائیل کے فلسطینیوں پر حملے کو ایک طرف تو اس نظر سے دیکھا گیا کہ ہر سال رمضان المبارک کے موقعے پر اسرائیلی فورسز کے یہ حملے معمول کا حصہ بن چکے ہیں تو دوسری جانب بعض تجزیہ کاروں نے اس معاملے کو پاکستان کیلئے اسرائیل کے ایک خفیہ پیغام کی صورت میں دیکھا۔

غور کیجئے تو اسرائیل پاکستان کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟ قبل ازیں میڈیا پر یہ خبریں سامنے آئیں کہ پاکستان پر سیاسی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے جبکہ آج بھی پاکستانی پاسپورٹ پر یہ لکھا ہوا پایا جاتا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں کار آمد ہے۔

سعودی عرب سمیت متعدد ممالک پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے حق میں پاکستان پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ دیگر متعدد اسلامی ممالک تو اس یہودی ملک کو تسلیم کرچکے؟ تمہارا دوست ملک ترکی بھی ایسے ممالک میں شامل ہے، پھر پاکستانی قوم کو کیا مسئلہ ہے؟

دُنیا بھر میں یہودی قوم کے واحد ملک اسرائیل کو کمزور سمجھنے کی غلطی مت کیجئے گا کیونکہ اس کی پشت پر امریکا جیسی سپر پاور موجود ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کو نماز کے دوران اسرائیلی فورسز کا سامنا تھا اور امریکا نے ایک مختصر سا پیغام جاری کرکے اسرائیل کی درِ پردہ حمایت کی۔

کھل کر حمایت کرنے کا دراصل یہ موقع نہیں تھا کیونکہ اگر امریکا کھل کر کہتا کہ اسرائیل جو کر رہا ہے، ٹھیک کر رہا ہے تو اسے بعض ممالک کی طرف سے مذمتی بیانات کا سامنا ہوسکتا تھا جو نپے تلے وزارتِ خارجہ بیان کو دیکھتے ہوئے نہیں ہوسکا۔

ایک بیان گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے بھی جاری کیا کہ رمضان المبارک کے دوران اسرائیل نے انسانیت کی تمام حدود اور عالمی قوانین کی تمام قیود پامال کیں۔ ہم اہلِ فلسطین کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں اور یہ کہ عالمی برادری فلسطینی عوام کے حقوق کیلئے فوری اقدامات اٹھائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان جس عالمی برادری کو فوری اقدامات اٹھانے کا مشورہ دے رہے تھے، اس نے تو مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھی پاکستان کی کوئی حمایت نہیں کی جو تاحال بھارت کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔

پھر عمران خان کو اسرائیل کے حملے پر مذمتی بیان جاری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ یہ کام تو شاہ محمود قریشی اور دفترِ خارجہ سے بھی لیا جاسکتا تھا؟ دراصل ایک خفیہ پیغام وزیر اعظم بھی اسرائیل کو دینا چاہتے تھے۔

وہ خفیہ پیغام یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کو نہ پہلے تسلیم کرتا تھا، نہ آج کرتا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے۔ ہم پہلے بھی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے تھے، آج بھی کھڑے ہیں اور آئندہ بھی اسی مؤقف پر قائم رہیں گے۔

بلاشبہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے معاشی نقصانات اور تسلیم کرنے کے فوائد بے شمار ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر یورپی یونین میں حال ہی میں پیش کی جانے والی پاکستان مخالف قرارداد، ایف اے ٹی ایف میں گرے لسٹ میں رہنے اور بلیک لسٹ کیے جانے کا خطرہ اور دہشت گرد قوم کی حیثیت سے پاکستانیوں کی عالمی برادری میں شناخت وغیرہ وغیرہ۔ اسرائیل وہ واحد ملک ہے جو ان سب مسائل کے تدارک کیلئے امریکا پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔

پھر بھی پاکستانی قوم کو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا کیونکہ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ مسلمانوں کے قبلۂ اول یعنی مسجدِ اقصیٰ کے ساتھ بے وفائی اور اسلام کے بنیادی اصولوں کے ساتھ غداری ہوگی اور شاید ایسا کرنے میں پاکستان حق بجانب بھی ہے لیکن دیگر اسلامی ممالک نے اسرائیل کو کیوں تسلیم کیا؟ کیا انہیں قبلۂ اول کی کوئی فکر نہیں؟ اکیلا پاکستان ہی ساری وفاداریاں نبھانے کا ذمہ دار ہے؟ ایسے بے شمار سوالات ہیں جن پر پاکستانی قوم کو غور کرنا ہوگا تاکہ امتِ مسلمہ کسی ایک مؤقف پر اتحاد کرسکے۔ 

Related Posts