صدارتی ریفرنس، سینیٹ انتخابات اور اوپن بیلٹ طریقۂ کار پر سپریم کورٹ کی رائے

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صدارتی ریفرنس، سینیٹ انتخابات اور اوپن بیلٹ پر سپریم کورٹ کی رائے
صدارتی ریفرنس، سینیٹ انتخابات اور اوپن بیلٹ پر سپریم کورٹ کی رائے

پاکستان تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ طریقۂ کار کے تحت کرانے کا عندیہ دیا تھا اور گزشتہ برس دسمبر کے دوران صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ سے سینیٹ انتخابات پر رائے طلبی کیلئے ریفرنس دائر کیا۔

آئینِ پاکستان کے تحت سپریم کورٹ کو قانون سازی کا کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے ہر جمہوری ملک میں یہ اختیار پارلیمان کے پاس ہوتا ہے تاہم صدرِ مملکت کی جانب سے رائے طلبی پر سپریم کورٹ نے آج اپنی آئینی رائے سے نوازا۔آئیے سپریم کورٹ کی سینیٹ انتخابات کے طریقۂ کار پر رائے اور اس پر حکومت اور اپوزیشن کے ردِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں۔ 

سپریم کورٹ کی رائے اور اختلافی نوٹ

آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر تحریری رائے جاری کردی۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ سینیٹ میں انتخابات آئین و قانون کے تحت منعقد ہوتے ہیں۔ دفعہ 218 کے تحت الیکشن کا صاف و شفاف انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر 8 صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کی تحریری رائے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کے انعقاد کیلئے تمام اقدامات کرنے کے اختیارات حاصل ہیں اور تمام سرکاری ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کے پابند ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ انتخابی عمل کو بدعنوانی سے تحفظ فراہم کرے۔

تحریری رائے کے مطابق الیکشن کمیشن کو کرپشن ختم کرنے کیلئے ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت ہے۔ بدعنوانی روکنے سے متعلق متعدد عدالتی فیصلے ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں سے سب سے اہم فیصلہ ورکرز پارٹی پاکستان کیس کا تھا۔نیاز احمد کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ نے کہا کہ بیلٹ پیپر خفیہ ہونے سے متعلق فیصلہ دیا جاچکا ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے نیاز احمد کیس میں واضح کیا تھا کہ بیلٹ پیپر کا اخفاء حتمی نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت پڑنے پر خفیہ رائے شماری حتمی طور پر خفیہ نہیں رہتی، جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے صدارتی ریفرنس پر رائے دینے سے انکار کردیا۔

عدالتِ عظمیٰ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے دینے سے انکار کرتے ہوئے اختلافی نوٹ تحریر کیا جس میں کہا گیا کہ صدرِ پاکستان کا ریفرنس دفعہ 186 کے دائرۂ اختیار میں نہیں۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخاب کیلئے تمام ضروری وسائل استعمال کرسکتا ہے۔ 

رائے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے تحریکِ انصاف نے سینیٹ انتخابات کیلئے اوپن بیلٹ کا تصور متعارف کرایا، پاکستان سمیت متعدد ممالک میں استعمال ہونے والے خفیہ رائے شماری طریقہ کار کو متنازعہ بلکہ غیر منصفانہ بھی سمجھا جارہا ہے، حالانکہ یہ طریقۂ کار ہمیں آئینِ پاکستان نے دیا ہے۔ خفیہ رائے شماری کو بدعنوانی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کی وجوہات پر غور نہیں کیا گیا۔

اراکینِ اسمبلی سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے ووٹ دے کر سینیٹرز کو منتخب کرتے ہیں۔ خفیہ رائے شماری کا مقصد بلیک میلنگ، ووٹوں کی خریدوفروخت اور سیاسی پرائیویسی کا حصول ہے جو اوپن بیلٹ سینیٹ انتخابات میں حاصل نہیں ہوسکتی۔ سپریم کورٹ کی رائے میں کہا گیا کہ خفیہ رائے شماری ضرورت پڑنے پر خفیہ نہیں رہتی، یعنی اگر بدعنوانی کا شک ہو تو تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔ 

تحریکِ انصاف کا مؤقف

عدالتی کارروائی کے دوران مدعی اور قانونی کارروائی کے دوران درخواست گزار اپنی درخواست واپس لے لے تو مقدمہ از خود ختم ہوجاتا ہے۔ تحریکِ انصاف نے ایک طرح سے یہ مقدمہ قائم کیا تھا، ڈاکٹر عارف علوی صدرِ مملکت سہی لیکن رائے کی ضرورت پی ٹی آئی حکومت کو پیش آئی تھی۔

 تحریکِ انصاف اوپن بیلٹ سینیٹ انتخابات چاہتی تھی اور سپریم کورٹ کی رائے اس کے خلاف آئی۔ اس کے باوجود سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ زبردست ہے۔سینیٹ الیکشن تاقیامت خفیہ نہیں رہتے، اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو ہدایت دے دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کی رائے شفافیت کے اعتبار سے خوش آئند ہے۔ 

وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے سپریم کورٹ کی رائے کے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کیا کہ سینیٹ انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو ہر قسم کے اقدامات اٹھانے کی اجازت ہے۔ بظاہر سپریم کورٹ کی رائے سے لگتا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کی دفعہ 226 کے تحت خفیہ رائے شماری سے ہوں گے تاہم جج صاحبان نے نشاندہی کی کہ الیکشن کمیشن  کو انتخابات کی شفافیت کیلئے ٹیکنالوجی استعمال کرنی چاہئے۔ 

سینیٹ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021ء 

اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021ء آج سنائی گئی سپریم کورٹ کی معززو محترم رائے کے بعد ختم ہوگیا۔

صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے آنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تاریخی رائے دی جس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن 3 مارچ کو منعقد ہونے والے سینیٹ انتخابات کیلئے عدالتی رائے پر عمل کرے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے واضح طور پر ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہدایت دی ہے۔ ابھی الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپرز شائع نہیں کیے۔ بیلٹ پیپرز کو شناخت بنایا جاسکتا ہے۔ سینیٹ الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021ء اس لیے ختم ہوا کیونکہ وہ عدالتی رائے سے مشروط قرار دیا گیا تھا۔ 

سندھ حکومت کا ردِ عمل 

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما و وزیرِ اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کی رائے آنے کے بعد صدرِ مملکت کو چاہئے کہ آرڈیننس فیکٹری بند کردیں۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ سیلیکٹیڈ حکمران قانونی محاذ پر پسپا ہو گئے۔ عدالتی فیصلہ پی ڈی ایم کی قانونی فتح ہے۔ سپریم کورٹ کی رائے کا خیر مقدم کرتے ہوئے وزیر، اطلاعات سندھ نے کہا کہ حکمرانوں کی اوپن بیلٹ کی ضد نے عدالتوں کا وقت بھی برباد کیا اور قوم کو بھی پریشان کیا۔ 

ن لیگ کا ردِ عمل 

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر و سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا کہ حکومت ووٹ کی طاقت سے کیوں ڈرتی ہے؟سینیٹ انتخابات میں ڈسکہ والی دھند ٹیکنالوجی نہیں چلے گی۔

مریم نواز نے کہا کہ ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ آئینِ پاکستان ووٹ چوروں کی چالاکیوں اور چالبازیوں سے بہت بلند ہے۔ آئین بدنیتی پر مبنی ریفرنسز اور سازشی آرڈیننسز سے بالاتر ہے۔ 

ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہدایت اور حکومتی فیصلہ

وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیکنالوجی کے استعمال کا جو اشارہ کیا جارہا ہے، اس سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ سینیٹ انتخابات بیلٹ پیپرز کے جھنجھٹ سے آزاد اور برقی ووٹنگ سسٹم کے ذریعے منعقد کیے جاسکتے ہیں۔

الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ امریکا میں سب سے پہلی بار الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم 1975ء میں استعمال ہوا تھا اور آج دنیا کے کم و بیش 30 ممالک میں یہ سسٹم استعمال ہوتا ہے جن میں بھارت اور برازیل جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔

الیکشن کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرے جس پر سامنے آنے والی سپریم کورٹ کی رائے کے بعد حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے فوری رجوع کا فیصلہ کر لیا۔

سرکاری وفد جس میں فواد چوہدری اور آئینی ماہرین شامل ہیں، وہ الیکشن کمیشن پہنچ کر سینیٹ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن حکام سے بات چیت کرے گا اور محسوس یہی ہوتا ہے کہ اس گفتگو کا اہم نکتہ سینیٹ انتخابات میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہوگا۔ 

Related Posts