پاکستان بھر میں کورونا وائرس نے تعلیمی عمل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، آج اسکولز دوبارہ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو 26 نومبر سے 24 دسمبر تک نہیں کھولے جائیں گے۔
کورونا وائرس سے وفاقی و صوبائی حکومتیں مکمل طور پر محتاط نظر آتی ہیں، جب بھی لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا جائے تو اسے بتدریج نافذ کیا جاتا ہے،لاک ڈاؤن اچانک نافذ نہیں ہوتا اورلاک ڈاؤن میں سب سے پہلی باری تعلیمی اداروں کی ہوتی ہے۔
آج بھی حکومت نے ملک بھر کے تعلیمی ادارے 26 نومبر سے بند کرنے کا حکم صادر فرمایا، تو ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک بار پھر اُس مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جارہا ہے جس سے دیہاڑی دار مزدوروں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے تھے؟
آئیے کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال، کیسز کی شرح اور دیگر اعدادوشمار کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی بندش اور اس سے ملحقہ دیگر ممکنہ فیصلوں پر غور کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا مکمل لاک ڈاؤن ہوسکتا ہے؟َ
کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا نے پاکستان بھر میں 34 افراد کی جان لے لی، 2 ہزار 756 افراد وائرس سے متاثر ہوئے اور 24 افراد نارمل کیسز سے شدید نوعیت کے کیسز میں تبدیل ہوئے جنہیں سانس لینے میں شدید تکلیف کا سامنا ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان کے 3 لاکھ 76 ہزار 929 افراد کورونا کا شکار ہوئے، 7 ہزار 696 جاں بحق جبکہ 3 لاکھ 30 ہزار 885 افراد صحتیاب بھی ہوچکے ہیں لیکن میڈیا پر یہ خبر شاید آپ کو کہیں نظر نہ آئے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 1 ہزار 57 افراد نے کورونا کو شکست بھی دی ہے جو ایک اچھی خبر ہے۔
کیسز کی شرح میں اضافہ
این سی او سی کے مطابق کورونا وائرس کی سب سے زیادہ شرح 11 اعشاریہ 45 فیصد آزاد کشمیر میں ہے۔ خیبر پختونخوا میں 9 اعشاریہ 85، سندھ میں 9 اعشاریہ 63، بلوچستان میں 7 اعشاریہ 73 جبکہ اسلام آباد میں 8 اعشاریہ 09 فیصد ہے۔
گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران کورونا سے ہر روز 35 افراد اوسطاً جاں بحق ہوئے، تعلیمی ادارے مثبت کیسز کی شرح میں 3 اعشاریہ 3 فیصد تک جا پہنچے جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ زیادہ تر کیسز ملتان، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور سندھ میں حیدر آباد اور کراچی سے سامنے آئے۔
تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ
قبل ازیں وزیرِ تعلیم شفقت محمود کی زیرِ صدارت اجلاس میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں کو بند نہ کیا جائے، تاہم آج حکومت نے یہ فیصلہ واپس لیتے ہوئے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو 26 نومبر تا 24 دسمبر بند کرنے کا حکم جاری کردیا۔
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ کم و بیش 1 ماہ کی چھٹیوں کے دوران آن لائن تعلیم جاری رہے گی یعنی یہ سردیوں کی چھٹیاں نہیں ہیں اور سردی کی چھٹیاں اگلے ہی روز سے شروع ہوں گی۔
وفاقی وزارتِ تعلیم کے فیصلے کے مطابق 25 دسمبر سے 10 جنوری تک سردیوں کی چھٹیاں کی جائیں گی جنوری کے پہلے 7 روز میں نظرِ ثانی کا سیشن کیا جائے گا جس کے بعد تمام تعلیمی ادارے 11 جنوری کو کھولنے کا فیصلہ متوقع ہے۔
وائرس سے متاثرہ تعلیمی عمل میں بڑی تبدیلیاں
ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی عمل میں کورونا وائرس نے بہت رخنے ڈالے ہیں۔ حکومت تعلیمی عمل میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے پر غور کر رہی ہے۔
مثال کے طور پر بین الصوبائی وزارتِ تعلیم کے اجلاس میں تعلیمی عمل کے تکنیکی معاملات پر بہت سی تجاویز دی گئیں۔ کہا گیا کہ 15 دسمبر سے ہائر سیکنڈری اسکولز کے طلباء کو اداروں میں نہ بلایا جائے۔ اساتذہ اداروں میں آن لائن ایجوکیشن کی تیاری کریں۔
تجویز یہ بھی دی گئی کہ آن لائن ایجوکیشن کیلئے مقامی طور پر انتظامات ہوں، ٹییل ریڈیو، ٹیلی اسکول اور آن لائن تعلیمی نظام کو نافذ کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی۔ وفاقی وزارتِ تعلیم نے تعلیمی سیشن کو 31 مئی تک لے جانے کی تجویز دی۔
تعلیم کی بد ترین صورتحال
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کے مطابق ملک بھر میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دُنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں کورونا وائرس نے تعلیمی عمل کو مزید دشوار گزار مرحلہ بنا دیا ہے۔
یونیسیف کے مطابق پاکستان کے 2 کروڑ 28 لاکھ بچے جن کی عمریں 5 سے 16 برس کے درمیان ہیں، وہ اسکول نہیں جاتے جو اِس عمر کے تمام بچوں کا تقریباً 44 فیصد بنتے ہیں۔
اگر 5 سے 9 سال کی عمر تک بچوں کی بات کی جائے تو 50 لاکھ بچے اسکولوں میں رجسٹرڈ نہیں اور پرائمری اسکول کی عمر کے بعد یہ اسکول سے باہر بچوں کی تعداد دو گنا ہوجاتی ہے جن میں 1 کروڑ 14 لاکھ لڑکے لڑکیاں جن کی عمریں 10 سے 14 سال کی ہیں، وہ رسمی تعلیم حاصل نہیں کرتے۔
سندھ میں 52 فیصد بچے اسکول سے باہر ناخواندہ رہ جاتے ہیں جن میں 58 فیصد لڑکیاں شامل ہیں جبکہ بلوچستان میں 78 فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں اور تعلیم حاصل نہیں کرتیں۔
غور کیا جائے تو تعلیم کی یہ صورتحال بد ترین کہی جاسکتی ہے کیونکہ علم ہی وہ زیور ہے جس سے نئی نسل کو آراستہ کیا جائے تو وہ بڑے بڑے کارنامے سرانجام دے سکتی ہے جس سے اسے محروم کیا جارہا ہے اور اب کورونا وائرس کی وجہ سے بھی سب سے پہلے تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے، جیسے پاکستان میں سب سے زیادہ بے کار کام علم حاصل کرنا ہو، جو سچ نہیں ہے۔
مکمل لاک ڈاؤن کا عندیہ
گزشتہ روز وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کو پشاور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا جلسہ ایک آنکھ نہیں بھایا۔ فرمانے لگے کہ پی ڈی ایم نے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ روزگار بھی داؤ پر لگایا ہوا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر کورونا وائرس کیسز کی رفتار یہی رہی تو وفاقی حکومت پورا ملک بند کردے گی جس کی ذمہ دار پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہوگی۔ حزبِ اختلاف این آر او کیلئے بے چین ہے لیکن 10 لاکھ جلسوں کے بعد بھی انہیں این آر او نہیں ملنے والا۔
چاہے وزیرِ اعظم نے یہ باتیں ناراض ہو کر کہیں یا پھر پی ڈی ایم رہنماؤں کے خلاف سیاسی بیان بازی میں، لیکن اس سے ایک بات واضح ہو گئی کہ وفاقی حکومت ملک بھر میں ایک بار پھر مکمل لاک ڈاؤن پر کسی نہ کسی طور غور ضرور کر رہی ہے۔
عوام کو چاہئے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے رہنما ہدایات (ایس او پیز) پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں ، کورونا کو سنجیدگی سے لیں اور سماجی فاصلے، بار بار ہاتھ دھونے اور خاص طور پر ماسک پہننے کو عادت بنا لیں کیونکہ اسی سے تعلیمی و کاروباری اداروں کا مستقبل وابستہ ہے۔