سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پیر کے روز عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
سات رکنی بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس امین الدین خان نے سماعت مکمل ہونے کے بعد کہا کہ اس کیس میں مختصر فیصلہ رواں ہفتے متوقع ہے۔
یاد رہے کہ سات رکنی بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں، شہداء فورم بلوچستان سمیت دیگر کی جانب سے دائر کی گئی 38 انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جو سپریم کورٹ کے 23 اکتوبر 2023 کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی تھیں۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے انکشاف کیا کہ جناح ہاؤس حملے کے دوران غفلت برتنے پر لاہور کے کور کمانڈر کو جبری ریٹائر کیا گیا اور انہیں پنشن سے بھی محروم رکھا گیا۔
جب جسٹس نعیم اختر افغان نے پوچھا کہ کیا ریٹائرڈ کور کمانڈر نے ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیشی دی تھی؟ تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس حوالے سے تفصیلات اُس وقت سامنے آئیں گی جب ٹرائل کورٹ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر ہوں گی۔
گزشتہ سال سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 9 مئی 2023 کے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث 85 ملزمان کے مقدمات میں فوجی عدالتوں کو مشروط طور پر فیصلے سنانے کی اجازت دی تھی۔
اپنے حکم میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے واضح کیا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے ان مقدمات کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے جو اس وقت عدالت میں زیر التوا ہیں۔
بعد ازاں فوجی عدالتوں نے 9 مئی 2023 کے واقعات میں ملوث پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 85 کارکنان کو دو سے دس سال کی سخت قید کی سزا سنائی جو فوجی تحویل میں موجود افراد پر فوجی تنصیبات اور یادگاروں پر حملوں کے الزامات کے تحت مکمل ہونے والے مقدمات کا اختتام تھا۔
جنوری میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 9 مئی کے کیس میں سزا یافتہ 67 افراد میں سے 19 کی رحم کی اپیلیں منظور کر لی گئیں۔